Ticker

6/recent/ticker-posts

آب حیات کا تنقیدی مطالعہ | آب حیات کا تنقیدی جائزہ : اردو خدمت

آب حیات کا تنقیدی مطالعہ | آب حیات کا تنقیدی جائزہ : اردو خدمت

آب حیات مولانا محمد حسین آزاد کی مشہور ترین اردو کی پہلی تذکرے کی کتاب ہے۔ آب حیات میں اس وقت کے شعرا اور ادیبوں کے تذکیرے درج ہیں۔ آب حیات محمد حسین آزاد کی خاص اسلوب کی وجہ سے کافی مقبول ہوئی۔اس کتاب میں محمد حسین آزاد نے اپنی انشا پردازی کے بے مثال نمونے پیش کیے ہیں جو کافی دلکش اور اور دلفریب معلوم ہوتے ہیں۔ اردو کا پہلا تذکرہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ” آبِ حیات “ ہم سب کے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں آب حیات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جو طلبہ اور طالبات کے لئے کافی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔


آب حیات کا تنقیدی

آب حیات اک تذکرہ ہے ۔ مولانا محمد حسین آزاد کی اس کتاب آب حیات کا شمار اردو کی ان چند بنیادی کتابوں میں ہوتا ہے جو فکر و نظر کی واضح تبدیلی، نئی تنقیدی رجحانات اور نئے مباحث کے دور میں بھی مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب تذکرہ نگاری کے زمرے میں آتی ہے ۔ تذکروں کے بارے میں عمومی شکایت یہ ہے کہ یہ مختصر ، گنجلک، مبہم اور کافی حد تک قافیہ بند ہوتے ہیں جس میں شعرا کے مختصر حالاتِ زندگی کا بیان اور انکی شاعری پر سرسری نگاہ اور اچٹتی ہوئی نظر ڈالنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس مختصر ترین حالاتِ زندگی اور رسمیہ تبصرے سے نہ انکی زندگی کا مکمل عکس نظر آتا ہے اور نہ ہی انکی شاعری کے پورے رنگ واضح ہوتے ہیں اور یوں یہ معاملہ ادبی تنقید کی جگہ ذاتی پسندو نا پسند کا بن کر رہ جاتا ہے غزلوں اور نظموں کے چند مصرعے نمونے کے طور پر پیش کرکے اس پر رسمیہ انداز کے تبصرے کرتے ہیں جیسے سلاست ہے روانی ہے سوز ہے گداز ہے وغیرہ یعنی پرانے تذکرہ نگاروں کے نزدیک شعر میں سلاست و روانی کا تعین اور سوزو گداز کی کھوج ہی تنقید کی معراج تھی شاید تذکرہ نگاروں کے اسی روش سے نالاں ہوکر کلیم الدین احمد نے پرانے تذکروں کو سنڈاس کا ڈھیر قرار دیا ہے۔ محمد حسین آزاد نے 1880 میں آبِ حیات نامی ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے شاعروں کی چلتی پھرتی بولتی چالتی زندگی دکھانے کا دعوے کیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب زبان اردو کی تاریخ ہے۔ اس باب کے تحت لکھی جانے والی پہلی سطر ہی تحقیقی غلطی پر مبنی ہے وہ لکھتے ہیں ”اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری زبان اردو برج بھاشا سے نکلی ہے۔ “

اس نظریئے کو اس وقت بھی کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی اب تو لسانی تحقیق اور لسانی نظام کے ماہرین نے دلیل کے ساتھ قطعی طور پر اس نظریے کو مسترد کر دیا ہے اس باب میں پراکرتوں کے بیان میں مختصراََ بدھ مذہب، سنسکرت کے وجود اور اسکے ارتقا کا بھی ذکر آگیا ہے۔ تمام شعرا کو زمانی اعتبار سے پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے اس کتاب میں آزاد نے ایک خیالی مشاعرہ منعقد کیا ہے جس میں اختصار سے تمام شعرا ٕ کے حالاتِ زندگی بیان کرنے کے بعد انکا کلام پیش کرتے ہیں پھر اس پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے شاعروں کے معاصرانہ چشمک اور مشاعروں کی نوک جھونک کو بڑی خوبصورتی سے لطیفے کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ولی دکنی کے سلسلے میں ایک لطیفہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن جوشِ ریختہ گوئی میں ناصر علی سر ہندی کو جو علی تخلّص کرتے تھے یہ شعر لکھا ۔۔۔اچھل کر جا پڑے جوں مصرعے برق ۔۔۔ ۔۔۔اگر مطلع لکھوں ناصر علی کوں ”ناصر علی نے جواب میں لکھا “ باعجازِ سخن گر اوڑھ چلے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولی ہر گز نہ پہنچے گا علی کو ۔۔۔آب حیات کے پہلے دور میں شمس ولی اللہ ولی دکنی، شاہ مبارک آبرو، شیخ شرف الدین مضمون، محمد شاکر ناجی، غلام مصطفی یک رنگ، وغیرہ کا تذکرہ ہے۔

آب حیات کا تنقیدی

آزاد اس باب کو اپنے دلکش اور سحر انگیز اسلوب میں یوں شروع کرتے ہیں ۔

یہ نظم اردو کی نسل کا آدم جب ملک عدم سے چلا تو اسکے سر پر اولّیت کا تاج رکھا گیا جس میں وقت کے محاورے نے اپنے جواہرات خرچے اور مضامین کی راج الوقت دست کاری سے مینا کاری کی جب کشورِ وجود میں پہنچا تو ایوان مشاعرہ کے صدر میں اسکا تخت سجایا گیا ۔ ص 75 اور اس دل آویز تمہید کے بعد اردو شاعری میں اولّیت کا سہرا ولی دکنی کے سر باندھتے ہیں حالانکہ جدید تحقیق نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ان سے ڈیڑھ صدی پہلے بادشاہِ وقت محمد قلی قطب شاہ اردو شاعری کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوچکے تھے۔ انکی غزلوں نظموں دوہوں اور رباعیوں میں ہندوستانی تہذیبوں کا عکس، تہواروں کا امنگ، موسموں کی رنگا رنگی، اور مٹی کی خوشبو جا بجا موجود ہے۔

ڈاکٹر ابو بکر عباّد صاحب اپنی کتاب، تنقید سے پرے، میں لکھتے ہیں۔
”ایک عرصے تک ولی دکنی کو اردو کا باوا آدم کہنے سمجھنے اور پڑھنے کے بعد اردو والوں پر جب یہ بھید کھلا کہ سلطنت اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر دراصل ولی دکنی سے ایک سو بیالیس سال پہلے گولکنڈہ کے بادشاہ محمد قلی قطب شاہ کی صورت میں پیدا ہو چکا تھا تو ادبی تاریخ کے ماضی کو دریافت کرنے اور شاعری کی تقریباََ ڈیڑھ صدی ترقی سے اہل اردو کی خوشی اور افتخار میں اضافہ ہوا دریافت ہونے والا شاعر بھی کیسا جس نے حمد، نعت، منقبت اور مناجات، لکھے غزل، ریختی رباعی، چہار در چہار اور قطعے لکھے قصیدے، مرثیے، مثنوی اور آزاد نظمیں لکھیں ،، ص 11۔

تذکرہ و سوانح جیسے خشک موضوع کو آزاد نے اپنے خوبصورت اندازِ تحریر اور دلکش پیرایہ بیان سے زندگی کی حرارت بخش دی۔ آبِ حیات کی سب سے بڑی خوبی اس کا پر کشش اسلوب اور افسانوی لب و لہجہ ہے مگر بعض ناقدوں کے نزدیک یہی اسلوب کی رنگینی اور افسانوی آہنگ کتاب کے خرابی کی وجہ بھی ہے۔

شوقِ انشا پردازی اور طرزِ ادا کی رنگینی پوری کتاب پر حاوی ہے جب بات آزاد کے پسندیدہ شاعر یا استاذ کی ہو تو وہ سوانح نگاری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کرنے لگتے ہیں اپنے استاد ذوق کا بیان اس افسانوی ڈھنگ سے کرتے ہیں۔

”جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا جن کی خوشبو شہرت عام بن کر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقاٸے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی وہ تاج سر پر رکھا گیا تو آب حیات اس پر شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچے ملک الشعراٸی کا سکہ اسکے نام س موزون ہوا اور اسکے طغراٸے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چنانچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادرالکلام پھر ہندوستان میں پیداہو ،،ص355۔

کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب اردو تنقید پر ایک نظر میں اس افسانوی ڈھنگ پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ زبان ناول اور افسانے کے لٸے تو بہتر ہے مگر تنقید کے لٸے سم قاتل اور روحِ تنقید کے منافی ہے۔ دراصل تنقید نگاری گول مول بات یا انشا پردازی کے پردے میں مبہم انداز اپنانے، نثری قصیدہ نگاری اور اور غیر قطعی فیصلہ کرنے کا نام بالکل نہیں۔ قطعیت اور دو ٹوک انداز تنقید کی شرطِ اول ہے۔ اب یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ آب حیات تنقیدی کتاب نہیں بلکہ سوانحی تذکرہ ہے اسلٸے یہاں تنقید کے تمام اصولوں کی بازیافت اور قطعیت کی تلاش بے سود ہے مگر جواب ہے کہ تذکرہ نگار ہو کہ سوانح نگار کسی کلام پر جب اپنی راٸے پیش کرتے ہیں اور اسکے حسن وقبح کی نشاندہی چاہے جس انداز میں کرے وہ تنقید کہلاتی ہے۔ اب یہ تنقید نگار کی ذمہ داری ہے کہ اصولوں کی روشنی میں واضح انداز میں فن پارے کا تجزیہ کرکے دو ٹوک انداز سے اپنی راٸے قاٸم کرے یا ذوقِ انشا پردازی میں قاری کو بھول بھلیا کی سیر کراٸے۔ تمام ناقدوں نے آب حیات میں آزاد کی جانب داری کو شدت سے محسوس کیا ہے غالب کے مقابلے اپنے استاد ذوق کو عظیم شاعر بنا کر پیش کرنا میر کی خودّاری وضعداری اور نازک مزاجی کو بدماغی ثابت کرنا، غالب کی شاعری پر تبصرے کم اور انکی مشکل معاشی زندگی کو  مشتہر کرنا، انکی جانب داری کی واضح مثال ہے۔ پہلے اڈیشن میں مومن جیسے یکتہ روزگار شاعر کو سرے سے نظر انداز کر دیا مگر اہل علم نے جب اس پر تنقید کی اور جانب داری کا الزام لگایا تو مجبوراََ انہیں دوسرے ایڈیشن میں شامل کرنا پڑا۔

آب حیات میں ویسے تو بہت سی غلطیاں ہیں لیکن یہ کتاب آج بھی اپنی بہت ساری خوبیوں اور تھوڑی سی خامیوں کے ساتھ اردو والوں کی ضرورت بنی ہوٸی ہے۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ