شہیدِ کربلا حضرت امام حسین کی شان میں منقبت اور قصیدے
حق کا پرچم حسینؑ ہے
حق کا پرچم، وفا کی زباں، حسینؑ ہے
دینِ احمدؐ کا روشن نشاں حسینؑ ہے
کربلا میں دکھا جو وفا کا سفر
سب کے ایمان کی بھی اماں حسینؑ ہے
ظلمتوں میں جلا روشنی کا چراغ
سرورِ عرش کا بھی گواں حسینؑ ہے
جس نے زینبؑ کو صبر و حیا دے دیا
صبر والوں کا وہ رازداں حسینؑ ہے
بادشاہوں کو جس کی غلامی ملی
عرش والوں کا بھی حکماں حسینؑ ہے
ظلم سہہ کر بھی راہِ نبیؐ پر رہے
حق کی راہوں کا وہ کارواں حسینؑ ہے
کربلا آج بھی کہہ رہی ہے صدا
ظلم کے سر پہ تیغِ رواں حسینؑ ہے
حق کا معراج، ایثار کی اک مثال
سب شہیدوں کا بھی کہکشاں حسینؑ ہے
---
منقبتِ امام حسین علیہ السلام
خدا کی راہ کا روشن چراغ حسینؑ ہے
نبیؐ کی آنکھ کا پیارا چراغ حسینؑ ہے
وفا کے باغ کا خوشبو بھرا گلاب ہے وہ
شہیدِ کربلا شمعِ فراغ حسینؑ ہے
حیاتِ دین کی خاطر کیا جو سب کچھ فدا
اسی فدا کا سراپا سراغ حسینؑ ہے
جسے نبیؐ نے کہا گلشنِ علیؑ کا پھول
خدا کے دین کا زندہ چراغ حسینؑ ہے
جھکا نہ ظلم کے آگے، جبر کی نہ مانی بات
حق و صداقت کا روشن دماغ حسینؑ ہے
یزیدیت کے مقابل میں سر بلند رہا
عدو کے ظلم کا سب سے بڑا داغ حسینؑ ہے
زمیں سے عرش تلک گونجتی ہے یہ صدا
مظلوموں کا سہارا ہے باغ حسینؑ ہے
خدا کے بعد اگر پوچھتے ہو دین کی بات
حیاتِ دین کا سب سے بڑا راگ حسینؑ ہے
نوحہ برائے شہادتِ امام حسین علیہ السلام
کربلا میں لٹا گلشنِ آلِ عبا، ہائے حسینؑ
ریت و صحرا میں تنہا ہوئے بے اماں، ہائے حسینؑ
پیاس کی شدتوں میں بھی چہرہ کھلا، ہائے حسینؑ
حق کی خاطر جو سب کچھ لٹا کر چلا، ہائے حسینؑ
دشمنوں نے بجھا دینا چاہا چراغِ وفا
مقتلِ عشق میں زندہ رہے باوفا، ہائے حسینؑ
ننھے اصغرؑ کی معصوم پیاسی صدا، خونِ گلو
کیا کلی نے بھی صحرا میں اپنا دیا، ہائے حسینؑ
اکبرِ نوجوان دیکھ کر خاک پر خون میں
رو پڑی زینبؑ و سجادؑ کی کربلا، ہائے حسینؑ
عباسؑ علمدار کا ہاتھ کٹ کر گرا
بھائی نے چھین لی دشمن سے بھی یہ جفا، ہائے حسینؑ
سر کو نیزے پہ رکھا، بدن ریت پر، خون بہا
عرش کانپا زمیں کانپ گئی جب ہوا، ہائے حسینؑ
جبر کے سامنے سر نہ جھکایا کبھی، مرحبا!
خونِ مظلوم نے دین کو دی بقا، ہائے حسینؑ
0 تبصرے