Ticker

6/recent/ticker-posts

اقوال زرین اردو | اقوال الحكماء اردو | اقوال حکمت | اخلاق کی اصلاح

اقوال زرین اردو | اقوال الحكماء اردو | اقوال حکمت | اخلاق کی اصلاح

منافق انسان سے وہ منکر بہتر جو سرِعام کسی بات کی تردید کردیتا ہے۔انکار کر دیتا ہے لیکن وہ بھیڑ کے لباس میں بھیڑیا نہیں ہوتا۔منافق انسان ہمیشہ دوسروں کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے جبکہ حقیقت میں وہ اپنی ذات کے سوا کسی کا بھلا نہیں چاہتا۔بےحسی کا لہو اس کی رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے اور مطلب پرستی کی سانس سے وہ دوسروں کی زندگی کو زہر آلود کرتا رہتا ہے۔ایسا انسان اس سانپ کی طرح ہوتا ہے جو دیکھنے میں تو رنگوں کا حسین امتزاج ہو لیکن زبان کی بجائے دل میں زہر رکھتا ہو۔شب بخیر۔از قلم آفتاب شاہ

کسی قوم کی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک اخلاقیات کو کرداری اور معاشرتی وصف نہ بنا لیا جائے کیونکہ ترقی کی تعریف معاشی پیمانہ سے ہٹ کر بھی کئی معنی دیتی ہے یہی وجہ ہے آج چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں کوئی دلیل ماننے کو تیار نہیں کوئی چہرے پر مسکراہٹ سجانے کو تیار نہیں کوئی ہمسائے کا حق ماننے کو تیار نہیں۔ملاوٹ، رشوت، بےایمانی، دھوکہ، چوری ہر ایک کو بری لگتی ہے لیکن چھوڑنے کو کوئی تیار نہیں ۔قوم کو اچھا استاد دیجئے اخلاقیات کا بیج بونا مشکل نہ ہوگا۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

بیٹے کی آرزو بہت سے گھرانوں کو برباد کر دیتی ہے اور بہت سے لوگ بیٹے کی پیدائش پر اس طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ جیسے ہفت اقلیم کی دولت میسر آگئی ہو لیکن یہی لوگ بیٹی کے جنم پر ماتم کناں ہوتے ہیں جیسے کسی سبز قدم نے گھر میں پاؤں رکھ دیا ہو۔برصغیر میں بہت سی بدعتوں میں سے ایک بدعت بیٹی کی پیدائش پر دکھ کا اظہار ہے جبکہ یہی بیٹی بیماری میں بڑھاپے میں گھر کی بری حالت میں بیٹے سے بڑھ کر ساتھ دیتی ہے۔بیٹی کو رحمت صرف زبان سے مت کہیں دل سے بھی سمجھیں تعلیم، جائیداد، نوکری، وراثت، پیار، مساوات اور پسند نا پسند میں پورا اختیار دیا جائے جب تک معاشرے میں شعور کی شمع روشن نہیں ہوگی تب تک بیٹی بوجھ ہی لگتی رہے گی۔صبح بخیر۔از قلم آفتاب شاہ

بعض راستے منزل کی جانب جاتے ہیں لیکن وہ منزل نہیں کہلاتے وہ راستے اپنے رنگ و روپ میں زندگی کے دھارے میں شامل ہوکر منزل کی یاد کو محو کردیتے ہیں ان راستوں سے لگاؤ منزل کی تلاش کو بےمعنی کردیتا ہے۔دل کا سکون اور قرار کبھی کبھی ایک پگڈنڈی کے بل کھاتے سرے سے اس طرح جڑ جاتا ہے کہ کبھی گمان ہی نہیں گزرتا کہ اس کا اختتام اشکوں سے آنکھوں کو ویران کردے گا اور لمسِ لطافت کی چاشنی جدائی اور ہجر کو دیکھ کر آنکھیں بند کیے رہتی ہے۔بعض لوگ تمام عمر ان ہی راستوں کے مسافر رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے منزل ایک پڑاؤ سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ کچھ منزل کو حاصل کرکے بھی بی فیض ہی رہتے ہیں شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

ہمارے معاشرے میں بہت سی عادات میں سے لوگوں کی ایک دلچسپ اور حیران کن عادت یہ بھی ہے کہ مجلس میں آنے والے فرد کا استقبال بہت عمدہ کریں گے اور جب وہ رخصت ہوجائے گا تو اس کے متعلق وہ الفاظ ادا کریں گے جو پہلے الفاظ کا الٹ ہوگا۔اس کی وہ خامیاں جن پر اللّٰہ تعالیٰ نے بھی پردہ ڈال رکھا ہے ان کو بھی کریدنے کی کوشش کریں گے۔یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی رویہ ہے۔جہاں پر گلے لگ کر پشت میں خنجر گھونپا جاتا ہے۔جہاں مسکرا کر منافقت کا سبق پڑھا جاتا ہے۔جہاں پر دوست کہہ کر سرِ بازار بیچ دیا جاتا ہے۔جہاں اپنے مفادات کے لیے کسی کو بھی مطلب پرستی کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔منافقت کے بازار میں انسانیت کے طلبگار بہت ہیں لیکن سچ کے خریدار بہت تھوڑے ہیں۔صبح بخیر۔از قلم آفتاب شاہ

ہر معاشرہ مختلف افراد کی اختلافی سوچ سے وجود پاتا ہے جہاں پر برداشت کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ایک دوسرے کے نظریات کو سننا اور سن کر تحمل اور محبت سے جواب دینا ایک متمدن معاشرے کا سب سے حسین پہلو ہوتا ہے۔لیکن وہ معاشرے جہاں پر اپنا سچ، اپنا نکتہ نظر، اپنا مسلک، اپنا فرقہ، اپنا صوبہ، اپنا شہر، اپنا نظریہ اور اپنا مخصوص اسلوب ہی دنیا سے بہتر لگنا شروع ہوجائے تو جلد ہی وہ معاشرہ تنگ نظری اور انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔ آج کل وطنِ عزیز میں بھی ایسی ہی وبا اور ہوا چلنا شروع ہوگئی ہے جہاں انسانوں کی بجائے نظریات سے عشق کی بنا پر تعلق روا رکھا جاتا ہے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

بعض الفاظ اپنے اندر روح رکھتے ہیں لیکن جسم کی حیثیت سے بےمعنی ہوتے ہیں اور بعض الفاظ تجسیم سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن روح سے خالی ہوتے ہیں ایسے ہی کچھ انسان بھی ہوتے ہیں جن کی روح کی موت جسم کی قبر میں پتہ نہیں کب کی ہوچکی ہوتی ہے لیکن جسم کا جنازہ تمام عمر اپنے کندھوں پر گھسیٹتے پھرتے ہیں اور کچھ لوگ جسم کی ازیت اس طرح برداشت کرتے ہیں کہ روح کے زخم شکست و ریخت کے باوجود ہونٹوں پر ہنسی لے آتے ہیں ایسے لوگ مر کر جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کو شکست صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ خود سے ہار جائیں ورنہ مسکراہٹ کا شہد دوسروں کی رگوں میں زہر بن کر اتارنے کا فن انہیں مطمئن رکھتا ہے۔۔۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

ہم ذوق افراد کا اکٹھا ہوجانا اور مل کر ایک دوسرے کی بات کو سننا اور سنانا اسی طرح ہے جیسے پانی کے میٹھے چشموں کا باہم میلاپ قدرت کے حسن کو واضح کرتا چلا جاتا ہے۔ ہم ذوق افراد کی قربت کا رنگ ایسے ہی ہے جیسے قوس وقزع کے دلفریب رنگ آسماں کی قدر و قیمت میں اضافہ کر کے اسے نایاب مناظر میں ڈھال دیتے ہیں ایسا فرد جوخیال کی رعنائیوں سے محبت کی خوشبو محسوس کرسکتا ہو اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں کیونکہ بد ذوق لوگوں کی جماعت کے مقابل میں وہ باذوق انسان بہترہےجوزندگی کی خزاں میں احساسِ لطیف کے پھول کھلانا جانتا ہو۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

عروج اور زوال ارتقاء کے عمل سے جڑے ہیں لیکن عام طور پر عروج کو منزل سمجھ کر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں زوال وہ سبق آموز مرحلہ ہوتا ہےجہاں فکر اور خیال کی پرتیں کھلتی بھی ہیں اور اشک بار کیفیات بھی عاجزی پیدا کرتی ہیں جو لوگ کامیابی کو زندگی سمجھتے ہیں وہ اصل میں اپنے لیے تکلیف کی شدت کو بڑھا رہے ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو زوال کو زندگی کو جزو سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ وقت سے آشنائی کا دم بھرتے ہیں ۔فخر اور غرور تب تک ہے جب تک خود ساختہ کامیابی کا عکس نظر آتا ہے لیکن جب زوال کے آثار نظر آنے شروع ہوجائیں تو سایہ بھی کنارہ کش ہوجاتا ہے۔۔ شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

صدیوں سے تقلید اور اندھی عقیدت خرد اور عقل سے دست و گریباں ہیں عقل کی آنکھ جیسے ہی روشن ہوتی ہے تو سوچ کی پرواز تقلید کے پر کاٹنا شروع کردیتی ہے اور یہیں سے عقیدت کے پروانے عقل پر دھند کی طے بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ اندھی عقیدت زندگی کے ہر شعبے کو دھندلا کے رکھ دیتی ہے اگر سیاست سے تعلق ہو تو وہ جماعت اور لیڈر دنیا جہاں سے الگ ہوجاتا ہے ۔مذہب ہو تو بتوں اور ستاروں کو بھی خدا بنانے کا عمل جائز ہوجاتا ہے اور اندھی عقیدت اگر انسانوں سے ہو تو ان کو خدا بننے میں دیر نہیں لگتی۔ضرورت داخلی آنکھ کو روشن کرنے کی ہے جو عقیدت کی باگ پکڑ کر سیدھے راستے پر لے کر جانے کا ہنر رکھتی ہے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

صاحب علم ہمیشہ آپ طور طریقوں اور عادت و اطوار سے پہچانا جاتا ہے۔جس طرح سورج کبھی یہ اعلان نہیں کرتا کہ وہ آسمان پر آچکا ہے اسی طرح ایک صاحبِ علم اور حقیقت کا ادراک کرنے والا کبھی شور اور بےتکے پن سے اپنی شناخت نہیں چاہتا۔بلکہ اس کی گفتگو اور عمل اس کی شخصیت اور علم کی پہچان بن جاتے ہیں ۔ایک بونا ہمیشہ خود کو بڑا کر کے پیش کرتا ہے لیکن پست قامتی جسمانی ہو تو کوئی عیب نہیں لیکن عقلی ہو تو کبھی بھی روا نہیں رکھی جاتی ۔اس لیے وہ گدھا جو خود کو اونچی آواز کی بنا پر شیر سمجھنا شروع کردے تو عین وقت جنگ دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

زندگی کے مرحلے وقت کے گھوڑے پر سوار ہو کر بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھتے ہی رہتے ہیں نا تو وقت کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی گزرا وقت واپس لایا جاسکتا ہے۔ وہ لوگ جو صلاحیت سے عاری ہوں اور خوشی کے لفظ کو دکھ کی زمین میں تلاش کرتے ہوں وہ ہمیشہ زندگی سے نالاں نظر آتے ہیں جب زندگی کا روپ ایک ہی مرتبہ جلوہ گر ہونا تو پھر زندگی کو گلوں شکووں میں گزرانا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔زندگی کو اس مسکراہٹ کے ساتھ گزاریں جو آپ کی پہچان کو اپنا نام عطا کردے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

دھوکہ اکثر اعتماد کی گود سے وجود پاتا ہے جس کی پرورش محبت اور چاہت کے دیس میں ہوتی ہے۔جس کا پالنا لاڈ پیار اور توقعات کی طویل خواہشات کا ہجوم ہوتا ہے۔اصل میں جب کسی فرد کے بارے میں عشق یا محبت میں رائے قائم کرلی جائے تو اس رائے کا غلط ہوناناممکنات میں شمار ہوتا ہے کیونکہ جو فرد زندگی کا حاصل قرار پائے وہ دل کی نگری میں غلط ہوکر بھی غلط نہیں ہوسکتا۔اس لیے اگر بھروسہ یا دھوکہ کبھی زندگی میں شامل ہوں تو یہ ہماری خود کی پسند اور چاہ ہوتی ہے ورنہ کوئی بھی دھوکے کو گھر میں کیوں لائے گا؟۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

کسی بھی انسان کی جبلت کو بدلا نہیں جاسکتا کیونکہ جبلت فطرت کے اس قانون پر مبنی ہوتی ہے جو معاشرتی رویوں سے بدلاؤ کا شکار ہوکر بھی اپنی اصل میں کہیں نہ کہیں برقرار رہتی ہے۔خواہشات کی تکمیل اور جنسی عوامل کا منہ زور رویہ اسی جبلت کی وہ خاصیت ہے جو ہمارے معاشرے میں اندھیرے میں تو قبول کیا جاتا ہے جبکہ اس کو دن کے اجالے میں قابلِ سنگسار سمجھا جاتا ہے۔وہ معاشرے جو حقیقت سے نظریں چرا کر الزام تراشی کے ستونوں پر اخلاقیات کا بوجھ ڈالتے ہیں تو بہت جلد جھوٹ کے وزن سے ضمیر اور اخلاقیات کا جنازہ کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں ۔جب تک حقیقت کی آنکھ سے معاشرے کو دیکھا نہیں جائے گا جبلت کا ہتھوڑا برستا رہے گا۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

ہمارا انسانوں کو پرکھنے کا معیار ان کی شکل، رنگ، نسل، ذات، فرقہ اور مذہب ہوتا ہے۔عام طور پر کسی کی عقل، ذہانت، سوچ اور فکر کی قدر اس لیے نہیں کی جاتی کیونکہ وہ پسندیدگی کے اس معیار پو پورا نہیں اترتا جو تنگ ذہنیت کے افراد کے مطابق نہیں ہوتا۔معاشرتی سطح پر برداشت سکھانے کی بجائے جب ہاتھ اٹھانے اور گردن اڑانے کا درس دیا جائے گا تو اس قانون کے لحاظ سے صرف گردن اتارنے والا ہی بچے گا۔ترقی یافتہ ممالک نے یہ بات بہت عرصہ پہلے سمجھ لی تھی کہ عقل اور ذہانت کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا اور نہ کوئی ملک ہوتا ہے اسی لیے ان کی ترقی انسانی ترقی کہلاتی ہے۔آج اگر وہ اس ترقی کو کسی خاص فرقے، مذہب، گروہ یا قبیلے سے جوڑ دیں تو سوچیں باقی دنیا کا کیا بنے گا؟ صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

عورت ہونا بذاتِ خود بہت نایاب تصور ہے۔ اسی لیے مرد کی طاقت، دھونس، جبر اور رعونت کے باوجود عورت کا وجود مرد کے لیے اس سانس کی مانند ہے جو اس کو زندہ بھی رکھتا ہے اور دنیا میں اس ہونے کا ضامن بھی ہے۔عورت کی چھایا عزت کے درخت سے بندھی ہے جب نفرت اور بےضمیری کی ہوا چلتی ہے تو عورت کا وجود برداشت کی دیوار کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔لیکن ہمت کا روپ اسے گرنے نہیں دیتا۔وہ دنیا کو ہمیشہ ایک ہی درس دیتی ہے کہ اس کا وجود ربِ کائنات کا وہ تحفہ ہے جو شرم و حیا والوں کے لیے معتبر ترین اور کم ظرفوں کے لیے امتحان ٹھہرتا ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

کمینہ اور کم ظرف اپنے اس عمل سے پہچانا جاتا ہے جس سے وہ خود کو دنیا کا چالاک ترین انسان سمجھ کر دوسروں کو کمتر خیال کرتا ہے۔حقیقت میں وہ خلوص کے منہ پر تماچہ مار کر خوشامد اور مکاری سے دنیا فتح کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے لیکن خوشامد کبھی بھی عقل اور مہارت کا بدل نہیں ہوسکتی۔یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد چند دنوں میں سچ کی دھوپ میں پگھل کر جھوٹ کی دنیا میں عیاں ہوجاتے ہیں۔دنیا فتح کرنے کے لیے جھوٹ اور مکاری کی بجائے اگرمحبت اور خلوص کا چلن اپنایا جائے تو کوئی کمینہ فطرت کبھی کسی کو دھوکہ نہ دے سکے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

ہر اہم دن گزر کر غیر اہم ہوجاتا ہے۔کیوں اس دن کو غیر اہم ہم خود بناتے ہیں۔کچھ دن منانے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ لباس کی طرح اوڑھنے والے ہوتے ہیں ۔خوشبو کی طرح ہر لمحہ محسوس کرنے والے ہوتے ہیں ۔خوش دلی کے ساتھ اپنی ذات میں جذب کرنے والے ہوتے ہیں ۔سرمے کی طرح آنکھوں میں لگا کر دنیا کو دیکھنے والے ہوتے ہیں لیکن کچھ دن اچھے اسباق کی طرح یاد رکھنے اور پڑھنے والے ہوتے ہیں۔دوسروں کو آگاہ کرنے کے والے ہوتے ہیں۔امتحان کی طرح زندگی نصاب میں شامل کرنے والے ہوتے ہیں۔لیکن افسوس تو اس بات کا ہے ہمارے اہم دن سونے کے لیے اور عام دن رونے کے لیے ہوتے ہیں ۔صبح بخیر۔از قلم آفتاب شاہ

ہر انسان کے اندر ایک سا چھوٹا بچہ ہمیشہ کلکاریاں مارتا رہتا ہے لیکن زمانے کے ڈر سے اس کو ہنسنے، مسکرانے اور قہقہے لگانے کا موقع نہیں ملتا ۔یہ بچہ کبھی تو کسی کھیل کو دیکھ کر مچل جاتا ہے اور کبھی فطرت کے حسین مناظر پر رقصاں ہونے کے لیے بےقرار رہتا ہے۔وہ لوگ جو اس شریر و حسین بچے کو مرنے نہیں دیتے وہ ڈھلتی عمر میں بھی زندگی کا لطف اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں اور وہ لوگ جو کہتے ہیں زمانہ کیا کہے گا ان کے اندر کا حسن اسی ایک فقرے سے بیوہ عورت کا سوگ بن جاتا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں زندگی کے حسن کو محسوس کرسکیں تو اندر کے بچے کو کبھی مرنے نہ دیں اس کو قلکاریاں مارنے دیں ۔ تاکہ زندگی کا لطف دوبالا ہوکر دکھ کی عمر کو اس طرح کم کرے کہ ہر قہقہ بچپن کی حسین یاد میں ڈھل جائے ۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

اداسی اصل میں خوشی کا دوسرا رخ ہے جو آنے والے پل کو بدلنے کا زاویہ کہلاتا ہے۔کچھ لوگ اداسی کو زندگی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ اداسی زندگی کا صرف ایک رنگ ہے۔اس کے ہوتے ہوئے بھی زندگی کے تمام رنگ اپنی جگہ پر برقرار رہتے ہیں۔اداسی نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کا احساس ہمدردی، نرمی اور ہجر کے موسموں کو دل پر اترنے کا موقع عطا کرتا ہے۔وہ لوگ جو چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے ملتے ہیں اور قہقہہ ان کا طرزِ تکلم ہو۔حقیقت میں وہ اداسی کو دل کے چراغ میں ڈھال کر اس کی روشنی سے زندگی کا مزہ لیتے ہیں ۔اداسی بری چیز نہیں لیکن تب جب جینے کا سلیقہ دکھ سے قہقہے کو جنم دے کر سیکھا جائے ۔۔شب. بخیر از قلم آفتاب شاہ
سیاست میں کہے گئے الفاظ کا وہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا جو سامنے نظر آتے ہیں بلکہ ان کے مطالب اس فرد کی سوچ میں الگ مفہوم رکھتے ہیں ۔سیاست میں ووٹ کی عزت سے مراد صرف ایک مخصوص گروہ کو ووٹ دینا ہے اور تبدیلی کا مطلب صرف کرسی کی تبدیلی ہے افراد وہ ہی ہونگے جن کے دل سیاسی تعفن سے آلودہ ہیں ۔روٹی کپڑا اور مکان سے مراد اپنے خاندان کو ان چیزوں سے سے اس طرح نوازنا ہے کہ باقیوں کے پاس کچھ باقی نا رہے۔قوم کے مفاد سے مراد ہوتا ہے کہ آپ مزید زبان کو دراز مت کیجئے آپکی قربانی ہونے لگی ہے۔اور خزانہ خالی ہے کا جملہ تب بولا جاتا ہے۔اپنی جیب بھرنی ہو۔سیاست ایک ایسا کھیل ہے جو اشرافیہ کے لیے مداری کا دائرہ اور عوام کے لیے امیدوں کا بےکار محل ہوتا ہے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

بڑھاپا اپنے ساتھ صرف بزرگی لے کر نہیں آتا بلکہ اپنے ساتھ خوف، ڈر اور تنہائی کے ڈراؤنے خواب بھی لیکر آتا ہے وہ خواب جو ضعف و ناتوانی کی بیماری سے بندھے ہوتے ہیں جو حقیقت میں کمزوری اور بےچینی کا عکس ہوتے ہیں۔تنہائی کا زہریلا ناگ ہر وقت اس طرح ڈستا ہے کہ وہی فریقِ ثانی جس کو تمام عمر کوسنے میں گزر جاتی ہے اب اس کی تلاش اور محبت کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔اولاد کا وجود ٹھنڈک بھی ہوتا ہے اور جلتا ہوا صحرا بھی جہاں پاؤں نہیں دل جلتے ہیں جب ایک جملہ اچھالا جاتا ہے کہ آپ کو کیا پتہ اب آپ تو بوڑھے ہوگئے ہیں اب یہ آپ کا زمانہ نہیں رہا اور سننے والا سوچتا ہے یہ وہ ہی جملہ ہے جو کبھی میں نے اپنے ماں باپ کو کہا تھا۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

ادھار سوچ کے مالک افراد کبھی بھی مستقل دلوں میں گھر نہیں کرسکتے ہیں ۔مانگے کا خیال اور مستعار لی فکر وبال جان بن جاتی ہے۔اصل چیز وہ نیا پن ہے جو ندرت عطا کرتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب سوچ کو ادھار لینے کی بجائے راہ اور راستہ بنانے کی کوشش کی جائے ۔ کبھی کتاب انسان کی آنکھوں کا کام دیتی تھی اور جب مختلف آنکھوں سے دیکھا جاتا تھا تو خیال کی رنگینی قائم رہتی تھی۔آج کتاب کا وجود تو ہے لیکن وہ آنکھیں نہیں جو حقیقی آنکھوں کے عکس کو اپنی آنکھوں کو حصہ بنا لیں۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

دوستی کی پرکھ کبھی تو چند لمحوں میں ہوجاتی ہے اور کبھی سالوں بعد بھی پہچان کا عمل جاری رہتا ہے۔کیوں کہ دوستی شفاف جھیل کی مانند ہے جہاں پر غیبت کی دھول، جھوٹ کا کچرا، دھوکے کا کیچڑ، بیوفائی کی مٹی ، بدزبانی کا گند اور مطلب پرستی و بےحسی کا کوڑا کبھی بھی ٹھر نہیں پاتا اور اگر وہ دوستی کی شفاف جھیل میں جگہ بنا لے تو پھر دوستی کا غبار وقت کے شکنجے میں ملیا میٹ ہوجاتا ہے۔دوست سب کے بنیں لیکن اپنے لیے کوئی ایک ایسا شخص ضرور تلاش کر کے رکھیں جسے دوست کہتے ہوئے فخر سے سینا چوڑا اور گردن بلند رہے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

محبت وہ ایک ہاتھ کی تالی ہے جس کے لیے دوسرا ہاتھ لازم نہیں ہوتا اور اگر طلب کی جستجو روح کی سیرابی کا مطالبہ کرے تو خیال کا رنگ پھیکا پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔اس نگر میں عقل، خرد، فکر اور سوچ کا روز قتلِ عام ہوتا ہے۔اسی لیے ایک نکتہ، اک نگاہ، اک چہرہ ہر فکر اور سوچ کو زیرِ نگیں لاکر فتح کا اشک بھرا جشن مناتا ہے۔رات کی سیاہی میں خیالِ یار کا عکس اس طرح مجسم ہوتا ہے کہ دل کے مندر میں وصل کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں اور کئی بار فراق کی تیز آندھی میں وجودِ عشق کے چیتھڑے تپتے سورج کی مانند ہر خوشی کو ڈھانپ کر سوگ کا رقص کرتے ہیں ۔جب ساری دنیا بھول جائے اور کوئی ایک فرد ساری دنیا بن جائے تو پاؤں میں یادوں کے گھنگروں باندھ کر دیوانگی کا ناچ شروع ہوجاتا ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

ایک اچھا دوست قدرت کا عطیہ ہوتا ہے جو تنہائی میں رازدان اور محفل میں دفاع کرنے کا حق ادا کرتا ہے جو اپنے لقمے کو اپنے غریب دوست کے سامنے محض اس لیے حلق سے نیچے لیکر نہیں جاتا کہیں میں اپنے دوست کا حق تو نہیں کھا رہا۔جو رنگ، شکل، ذات پات، مذہب، برادری، فرقہ اور امارت و غربت سے بالاتر ہوکر محبت کے ترزو میں اپنا خلوص لیکر دوستی کے دربار پر حاضری دیتا ہے۔دوست کہہ لینا بہت آسان ہے لیکن اس دوستی کو نبھانا اسی طرح ہے جیسے پہاڑ کے سینے میں سے دودھ کی نہر نکالنا۔۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

عمل اور لفظ ضروری نہیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں بعض لوگوں کے پاس الفاظ کا زخیرہ عمل کے سمندر کو بھرنے کے لیے کافی ہوتا ہے اور بعض لوگ عمل کے رویے سے الفاظ کا راستہ بدل دیتے ہیں۔ہر لفظ ہر جگہ کے لیے نہیں ہوتا اور ہر عمل ہر مقام کے لیے یکساں نہیں ہوتا۔لفاظی کے جادوگر اپنے حسنِ تخیل سے ایسی سحر کاری کرتے ہیں کہ دنیا اچانک بدل جاتی ہے حقیقت میں الفاظ کا چناؤ اگر بہتر ہو تو عمل کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے لیکن اگر صرف الفاظ کا جادو ہی چلتا رہے تو بہت جلد ایسا جادوگر شیخ چلی کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے۔صبح بخیر۔از قلم آفتاب شاہ

انسان کی زندگی اور دریا کا بہاؤ ایک جیسا ہوتا ہے۔دریا بھی سکوت کی حالت میں بےبس اور ویران نظر آتا ہے جبکہ انسان بھی جہد مسلسل سے اگر کنارہ کش ہوجائے تو بےکار قرار پاتا ہے۔دریا کی روانی، بہاؤ، تیزی و تندی، کٹاؤ کا عمل، راستوں کا بدلنا، ہر چیز کو ہڑپ کر جانا اور سمندر میں گر کر اپنی ہستی کا خاتمہ انسان کو یہ یاد دلاتا ہے کہ اس کی ہستی بھی ایک دن حقیقت میں داخل ہوکر بے حقیقت ہوجائے گی وہ بھی مٹی میں مٹی کا رنگ اختیار کرجائے گا وہ کتنا ہی زندگی میں تند دریا کی مانند رہا ہو چاہے اس کی تندی و تیزی طوفانوں کا رخ ہی کیوں نہ بدل دیتی ہو ایک دن اسے زندگی کا در بند ملے گا۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

گزرتے دن ہر لمحہ کو میں اور تو کے احساس میں ڈھالتے ہیں یہ میں اور تُو کا وہ ہی تصور ہے جس کی تلاش میں انسان تمام عمر سرگرداں رہتا یے لیکن سرا ہاتھ میں آنے کی بجائے دور ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ سرا اس کی گردن سے بندھا ہوتا ہے۔یہ سرا ہی گردن میں تکبر کا رویہ پیدا کرتا ہے اور یہی سرا عاجزی کی ڈور کو ہلا رہا ہوتا ہے اور جب جب اس رسی کو جھٹکا لگتا یے ۔تو اکڑے سر اس طرح جھکتے ہیں کہ کوئی نام لیوا بھی نہیں بچتا اور انسان سمجھتا ہے وہ ہمیشہ میں بن کر تو سے گریز کرتا رہے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتا جب آواز پڑے گی تو یہ فرق ختم ہو جائے گا۔ اور میں تو میں ڈھل کر منزل پر حسابِ آخر کا متمنی ہوگا۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ

اس چھوٹی سی زندگی میں خواب بڑے دیکھنے چاہئیے کیونکہ خواب انسان کو زندہ رکھتے ہیں متحرک رکھتے ہیں امید سے جڑا رکھتے ہیں تعبیر سے قطع نظر خود کو وہاں بھی دیکھنا چاہیے جہاں پر صرف ممکن اور ناممکن ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوں خواب ضرور دیکھیں اس سے پہلے کہ آپ نیند سے محروم ہو جائیں ۔۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ

سوچ کے زاویے انسان کے رویوں سے تعمیر ہوتے ہیں وہ رویے جو کبھی تو محبت کے جہان پل بھر میں آباد کر دیتے ہیں اور کبھی پل بھر میں خیال کی بربادی کا روپ پوری کائنات میں نظر آنے لگتا ہے۔یہ رویے عادات میں تب ڈھلتے ہیں جب قرب کا چاند اور ہجر کا سورج اپنے وجود کے احساس سے دل کے آسمان پر جلوہ گر ہوتے ہیں ۔جب نفرت کی گرم اور ناخوشگوار تپش محسوس ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ رویوں کا نفرت بھرا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔اور جب محبت کی دلفریب ہوائیں دل کے گلزار کو چھو کر گزر جائیں تو سمجھ لیں احساس کا چاند گلاب کے پھول کی خوشبو کا لباس پہن کر دیارِ یار میں رقصاں ہے۔اسی لیے تو محبت اور نفرت رویوں کی شاخ پر کھلنے والے وہ پھول ہیں جن کی آبیاری کے لیےخلوص اور جذبہ ہمیشہ کارفرما رہتے ہیں ۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ (کتاب آفتابیات اقوالِ جدید)

چراغ تب تک نہیں جلتا جب تک ہمت کا قدم اسکی جانب بڑھایا نہ جائے لیکن چراغ اگر پھر بھی نہ جلے تو سمجھ لیں اس میں جلنے کی طاقت موجود نہیں۔زندگی کا چراغ بھی تبھی جلتا ہے جب امید کا قدم اٹھایا جاتا ہے لیکن اگر چراغ کی لو مدھم ہو یا چراغ جلنے پر آمادہ نہ ہو تو یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ انسانی چراغ میں ہمت، غیرت، حمیت، محنت، جدوجہد، صبر اور توکل کا تیل موجود ہے؟ کیوں کہ فصل اُگانے کے لیے زمین کی بارآوری اور نرمی شرط ہے۔شب بخیر۔ از قلم آفتاب شاہ۔۔۔کتاب آفتابیات

زندگی انسان کو ایک دفعہ ملتی ہے تو پھر ہزاروں وسوسوں سے دل کو ڈرا کر رکھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟لوگ کیا سوچیں گے؟ کیا لوگوں کے پاس واقعی ہی اتنا فارغ وقت ہے کہ ہمارے بارے میں سوچتے رہیں؟ اگر یہ بات سچ ہے تو فوت ہونے والے فرد کو اس کے اپنے کس طرح بھلا دیتے ہیں؟ مرحوم کا تزکرہ اس کے دوست اور چاہنے والے بھی کبھی کبھار کرتے ہیں۔زندگی کے لطف کو لوگوں کی سوچ سے ماپنے کے عمل کو مٹا دیجیئے یقین مانیں جو لوگ آپکے مرنے کا تزکرہ لمحوں میں بھلا دیں ان کے لیے آپکی زندگی کی کامیابی اور ناکامی پونے کے نیچے رکھے ہوئے روٹی کے سوکھے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ ..کتاب آفتابیات

محبت میں ضروری نہیں چاہت کا بندھن دونوں فریق باندھ کر رکھیں کچھ لوگ اپنی زندگی میں پجاری بن کر گزار دیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ محبت کی دیوی کو گھٹنوں کے بل جھک کر سلام پیش کرتے رہیں اس کی پراتھنا میں سب کچھ دھان کردیں اپنے وجود کے ٹکڑے اس دیوی کو بھینٹ کر کے کسی بہتے دریا کی مانند پیروں میں بکھرتے چلے جائیں چاند ستاروں کو اس کے ابرو کے ایک اشارے پر زمین بوس کر کے رفیقِ دل کے حضور پیش کردیں۔دنیا کی چاہ کو ایک فرد سے منسوب کر کے اسی کو دنیا قرار دینا اس پجاری کا شیوہِ زندگی ہوتا ہے تبھی وہ ہر چوٹ پر مسکرا کےاگلی چوٹ کا انتظار کرتا ہے کیونکہ پجاری مانگنے پر نہیں دینے پر یقین رکھتا ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ ۔۔کتاب آفتابیاب

ایک شاعر یا ادیب اگرچہ داد کا طالب نہیں ہوتا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی تخلیق کی پسندیدگی پر خوشی کے شادیانے ضرور بجاتا ہے۔اور دل مسرت اور تسکین کے پنگھوڑے میں سکون کی بانسری بجاتا ہے ۔ایک شاعر کو عام عوام سے کوئی گلہ نہیں ہوتا لیکن وہ ہمیشہ شاکی رہتا ہے کہ ادب کو سمجھنے والے اور شاعر حضرات داد دینے میں کنجوس ہوتے ہیں ۔اچھے شعر کی داد اور کرکٹ میں لگا سکسر اگر اپنا حق نہ منواسکیں تو سمجھ لیں لوگ حسِ لطیف سے عاری ہیں ۔۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ ۔۔کتاب آفتابیات

تقدیر اور قسمت کا فلسفہ اتنا مشکل نہیں جتنا کچھ لوگوں نے اس کو بنا دیا ہے۔تقدیر بنیادی طور پر اس عمل سے جڑی ہے جو تقدیر بالدعا کا بندھن ہے اور تقدیر بالرضا کے ساتھ اپنے تعلق کو پختہ رکھتا ہے۔انسان کا اختیار اس سے چھینا نہیں گیا بلکہ اس کو بتایا گیا ہے کہ تقدیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مدد خداوندی کا نام نہیں ہے بلکہ جہد مسلسل کی سان ہی عطا اور جزا کے رنگ نمایاں کرتی جاتی ہے۔اس لیے وہ اقوام جنہوں نے اس قول کو اپنایا وہ کامیابی کے زینوں کو طے کرتی رہیں اور جنہوں نے غیبی مدد کی آس پر زندگیاں گزار دیں وہ ترقی کرنے والوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ۔۔ کتاب آفتابیات

محبت اور عشق میں بہت فرق ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں محبت ہی عشق ہے وہ عشق کے بنیادی فلسفے سے آگاہ نہیں ۔عشق ذات کی تکمیل سے کائنات میں تحلیل کا عمل ہے یہ وہ جہاں ہے جہاں پر تپتی ریت پر کوڑے بھی پڑیں تو صدائے عشق اپنے محبوب سے وابستگی کا اظہار کرتی ہے۔تن سے جلتی آگ جلد کو رکھ کی طرح اڑا کے رکھ دے پھر بھی دلِ صدیق کلمہِ یار پڑھتا رہتا ہے۔جہاں یار نہ بھی ہو پھر بھی ہر طرف وہ ہی نظر آتا ہے اور جب وہ نظر آتا ہے تو اپنی ذات معدوم ہو جاتی ہے۔۔شب بخیر۔۔از قلم آفتاب شاہ کتاب آفتابیات

وطنِ عزیز میں جہاں سیاسی طور پر نئے نئے ذاتی نظریات نظر آتے ہیں ویسے ہی معاشرتی سطح پر بھی نئی رسوم اور رواج جنم لے رہے ہیں جن کا نا ہونا زیادہ بہتر ہے لیکن بھیڑ چال کا شکار ہمارا معاشرہ ان رسوم کا شکار ہوتا جاتا ہے۔فوت ہونے والے کا دکھ وہ ہی جانتا ہے جس کا باپ، ماں، بہن، بیوی یا بیٹا بیٹی چلے گئے جو الم اور غم کی تصویر بنا ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے موقع پر اس شخص کو دلاسا دینے کی بجائے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ کھانا میں کیا ہے؟ بریانی ہے یا چھوٹا گوشت ہے؟ اصل میں اس وقت وہ خود کا چھوٹا پن ظاہر کر رہے ہوتے ہیں ۔کیا عجیب لوگ ہیں جو تعزیت کے بدلے چند بوٹیاں چاہتے ہیں شاید ہم وہ گدھ ہیں جو زندوں کو موت کی وادی میں اترتا دیکھ کر کر اپنے حصے کے گوشت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ ۔۔کتاب آفتابیات

پوری دنیا میں نقل اور متاثر ہونے میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام میں ادب کی ترویج پروان چڑھتی نظر آتی ہے جبکہ ہمارے ہاں ادب کا زوال اس وجہ سے کہ اول تو نئے خیال کو لوگ قبول نہیں کرتے اور اگر قبولیت مل بھی جائے تو سرقہ باز موقع سے فائدہ اٹھا کر پوری تحریر ہی اپنے نام سے شائع کروا دیتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے یہ کام کوئی ان پڑھ، جاہل،ریڑھ بان یا مزدور نہیں کرتا۔یہ کام وہ نام نہاد پڑھے لکھے اور بزعم خود شاعر یا ادیب کرتے ہیں جو ادب کی خدمت چوری کے خیالات سے کرتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے ہمارے ہاں شعراء اور مصنفین کی تو بہتات ہے لیکن عالمی سطح کی تصنیف ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔۔۔صبح بخیر.از قلم آفتاب شاہ ۔کتاب آفتابیات

بعض اوقات بات کرنے والے کا وہ مقصد نہیں ہوتا جو سمجھنے والا کا ہوتا ہے عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں جو بات کی اہمیت کو تعلق کی نوعیت سے پرکھتے ہیں اور بیوقوف جلد بازی میں تعلق کو جذباتیت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور جب تعلق ریت کی دیوار کی مانند بکھر جاتا ہے تو اس بات پر نوحہ کناں ہوتے ہیں کہ وفا کا بدلہ تو بیوفائی سے دیا گیا ہے۔عقل مند اور مصلحت انگیز ہر جملے اور فقرے کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تبھی وہ تعلق کا دامن ہمیشہ احساس کے پھولوں سے ٹانکتا رہتا ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ ۔کتاب آفتابیات

ناکامی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ زندگی کا نکتہ نگاہ زوال سے جڑ گیا ہے بلکہ ناکامی اصل میں اس تجربے کا نام ہے جو بتاتا ہے کہ کامیاب کس طرح ہونا ہے عام طور پر ناکامی کو برداشت نہیں کیا جاتا یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی زندگی کی دوڑ میں جیتنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔لیکن اگر ناکامی کے فلسفے کو سمجھ لیا جائے تو کامیابی کا راستہ اور بھی آسان ہوجائے گا۔زندگی میں ناکامی کی تیاری کرنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے کیونکہ مایوسی تبھی پیدا ہوتی ہے جب توقع کے خلاف نتیجہ پیدا ہو۔اس لئے کامیابی کے تصور کو ہمیشہ دو زاویوں سے پرکھیں یاس کا سایہ زندگی سے اوجھل رہے گا۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ۔۔ کتاب آفتابیات

انسان کا ظرف اسکے کردار کی ایک کڑی ہے اور ظرف کے مالک وہ لوگ ہوتے ہیں جو برداشت کی قوت سے مالا مال ہوتے ہیں لیکن اسکا یہ مطلب بھی ہرگزنہیں کہ ہر دفعہ ایک ہی فرد برداشت کا مظاہرہ کرے محبت اگر محبت کو جنم دیتی ہے تو کسی کی بےحسی بعض اوقات غیرت کے دیے بھی روشن کر دیتی ہیں ۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ..کتاب آفتابیات

کسی قوم کی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک اخلاقیات کو کرداری اور معاشرتی وصف نہ بنا لیا جائے کیونکہ ترقی کی تعریف معاشی پیمانہ سے ہٹ کر بھی کئی معنی دیتی ہے یہی وجہ ہے آج چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں کوئی دلیل ماننے کو تیار نہیں کوئی چہرے پر مسکراہٹ سجانے کو تیار نہیں کوئی ہمسائے کا حق ماننے کو تیار نہیں۔ملاوٹ، رشوت، بےایمانی، دھوکہ، چوری ہر ایک کو بری لگتی ہے لیکن چھوڑنے کو کوئی تیار نہیں ۔قوم کو اچھا استاد دیجئے اخلاقیات کا بیج بونا مشکل نہ ہوگا۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ...کتاب آفتابیات

سوالات کا سفر بےشمار خوبیاں رکھتا ہے وہ لوگ جو سوالات سے علم کی راہ پر چلتے ہیں کبھی نا کبھی اپنی منزل پر باعلم ہوکر پہنچ جاتے ہیں لیکن سوال کی نوعیت اور اہمیت کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ہر سوال پوچھنا ضروری نہیں ہوتا اور کس سے پوچھنا ہے اس بات کا تعین بھی ضروری ہے۔سوال سے حاصل شدہ جواب کا تعلق علم سے یا وقت گزاری سے اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔اصل بات کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو سوال ایک نعمت سے کم نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں سوال کرنے والا بدتمیز کہلاتا ہے اور سوچ کو سوال کی شکل دینے والا باغی اور بگڑا ہوا قرار دیا جاتا ہے۔اگر معاشرے کی اقدار کو زندہ رکھنا ہے تو سوال کو مرنے نا دیں ورنہ علم کے نام پر ڈگری تو موجود ہوگی لیکن ڈگری سے حاصل شدہ علم کسی کام کا نہیں ہوگا۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ..کتاب آفتابیات

سلوک کی منزلیں شریعت کے روبرو سجدہ ریز ہوئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیں۔زبان کے اقرار کا تعلق دل سے ہو اور دل عمل سے جڑ جائے تو حقیقت کا عرفان روح میں اترنا شروع ہوجاتا ہے۔جہاں پر وجد میں آنے بغیر بھی سیرابیِ قلب کا نظارہ سکونِ قلب سے وابستہ ہوجاتا ہے۔آنکھ عکسِ یار کی تلاش میں بےقراری کا ورد کرتی ہو تو سجدے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے اور سر جب محبوبِ حقیقی کو سلامِ عقیدت پیش کر رہا ہو تو عبادت کا لباس انسان کی پہچان بن جاتا ہے۔صبح بخیر از قلم آفتاب شاہ..کتاب آفتابیات

عام فرد کے بہت سے مسائل اس کے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں جن سے وقت بےوقت وہ پریشان ہوکر دوسروں کی زندگی بھی اجیرن کرتا رہتا ہے۔جب واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر اور ہزاروں مختلف موبائل ایپ اور خود موبائل نہیں تھا تب بھی زندگی گزرتی تھی۔لیکن جدت نے جو سب سے بڑا ظلم عام فرد پر کیا وہ یہ تھا کہ خاص چیزوں کو اتنا عام کردیا کہ ان کہ بغیر گزارے کا تصور معدوم ہوتا گیا۔بڑی گاڑی اگر دسترس میں نہ ہو تو افسوس نہیں ہوتا لیکن اچھا موبائل پاس نہ ہو تو نیند روٹھ جاتی ہے۔موبائل کے ساتھ نیٹ اور نیٹ کے ساتھ وقت بھی اب سستا ترین دستیاب ہے لیکن صرف وہاں جہاں سروس کی سہولت موجود ہو اور یہ سروس ایسی ہے جس نے افراد کو دور کر کے نیٹ ورکس کو جوڑ دیا ہے۔صبح بخیر۔از قلم آفتاب شاہ۔۔کتاب آفتابیات

انسان جس گھر میں رہتا ہے اس کی عزت کرتا ہے اس کا احترام اس پر واجب ہوتا ہے کیونکہ وہ گھر اس کو تحفظ ہی عطا نہیں کرتا بلکہ پہچان کے عمل سے بھی گزارتا ہے یہ سایہ دار جگہ اس شخص کو جینے کا طریق سکھاتی ہے ۔لیکن وہ لوگ جو اپنے گھر کا کھا کر اسی کو گالیاں دیتے ہیں ان کی مثال اس بچھو کی ہے جس سے بھلائی کی امید عبث ہوتی ہے۔ایسے افراد کا ڈنک ان کے اپنے جسم کو ہی بوسیدہ اور زہریلا کرتا رہتا ہے۔ایسے افراد کو وقت کا تماچہ زندگی کی حقیقتوں سے آشنا کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ خود فریبی اور احساس کمتری کے شدید ترین جذبات سے قدآور بننے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر پر ان کا انجام دھوبی کے جانور جیسا ہوتا ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ۔۔ کتاب آفتابیات

ایک بچہ جس گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اسی کے طور طریقے اپناتے ہوئے مذہب یا فرقہ کے در پر سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔جو اس کو سکھایا جاتا ہے اس کی دلیل عقیدت کی خوشبو سے اس قدر مسحور کن ہوتی ہے کہ وہ تمام عمر اسی باغیچے کے پھولوں میں منڈلانا چاہتا ہے مسئلہ تب درپیش ہوتا ہے جب کوئی دوست،رشتے دار یا واقف کار راتوں رات اس فرد کا مذہب یا فرقہ تبدیل کروانا چاہتے ہیں جبکہ عقلی اور شعوری طور پر یہ بات کس طرح تسلیم کی جاسکتی ہے کہ وہ فرد کسی کی نفرت، تشدد، لالچ، محبت یا دھونس سے دلی طور پر بدل جائے گا۔اگر کسی کو بدلنا ہے تو اخلاق اور کردار کا لباس پہن لیں۔دلیل کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔۔صبح بخیر۔تحریر آفتاب شاہ۔۔کتاب آفتابیات

کچھ حقیقتیں اگر بیان نہ کی جائیں تو بات کا مان رہتا ہے۔ہر سچ بولنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ سچ جھوٹ کی تپش سے زیادہ جھلسا دینے والا الاؤ کا روپ دھار لیتا ہے۔سچ کڑوا ہی ہوتا ہے لیکن ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس کڑواہٹ کو قبول کر پاتے ہیں؟ اصل بات سچ کو برداشت کرنا اور موقع محل کے مطابق ادا کرنا ہوتا ہے۔کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل روکتا ہے اور زبان حرکت میں رہتی ہے اور بعض دفعہ زبان رکتی ہے لیکن دل بےقرار ہوتا ہے.یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کا سچ بھی اس کی. اپنی شخصیت سے جڑا ہوتا ہے ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے ایک کی سچائی دوسرے کی شرمندگی ہو اس کا مطلب ہے ہم صرف اس سچ کو قبول کرتے ہیں جو ہمارا من پسند ہے شاید اسی لیے معاشرہ منافقت کے لبادے میں تعفن زدہ ہے۔شب بخیر از قلم آفتاب شاہ کتاب آفتابیات

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ