Ticker

6/recent/ticker-posts

مٹی کی گڑیا : اردو افسانہ | Urdu Story Mitti Ki Gudiya

Urdu Story Mitti Ki Gudiya

مٹی کی گڑیا
مما۔۔۔۔ مما مجھے یہ گڑیا لینی ہے
کونسی یہ مٹی کی
جی مما (۷ سال کی اریج معصومیت سے گڑیا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی)
لیکن بیٹا یہ مٹی سے بنی ہوئی گڑیا ہے بہت ہی نازک ہے تم سنبھال نہیں پاؤ گی (ربیکہ ننھی اریج کو سمجھا رہی تھی)
نہیں مما پلیز۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لینی ہے 
پلیز لے دیں مما آئی پرومس نہیں توڑوں گی(اریج بضد تھی)
اچھا ٹھیک ہے لیکن خیال سے
اچھا مما تھینک یو سو مچ (ننھی اریج خوشی خوشی لال گھاگھرے میں ملبوس اس گڑیا کو ہاتھ میں لیکر اتنی خوش ہوئی جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو اس نے گھر جاتے ہی اس گڑیا کو اپنے کھلونوں والی الماری میں سب سے آگے سجا دیا اور روز احتیاط سے نکال کر کھیلتی اور پھر واپس اسی احتیاط سے رکھ دیتی)
دیکھتے ہی دیکھتے اریج 16 برس کی ہوگئی پتہ ہی نہیں چلا (ربیکہ اپنے خاوند اریج کے بابا سے مخاطب ہوئی)
ہاں ہماری ننھی گڑیا 16 برس کی ہوگئی (اریج کے پاپا زین العابدین اپنی پیاری اور اکلوتی بیٹی کی تصویر کی جانب دیکھتے ہوئے بولے)

یہ صاحبزادی ہے کہاں (اریج کے بابا اپنی لاڈلی کو ڈھونڈتے ہوئے متفکر لہجے میں بولے)

وہ اس کے منتھلی ٹیسٹ ہورہے ہیں اسی کی تیاری کر رہی ہے اپنے کمرے میں (ربیکہ نے اریج کے بابا کو آگاہ کیا)

سنئےکل میں نے گھر میں سالگرہ کی تقریب رکھی ہے شام 7 بجے یاد رکھئیے گا وقت سے پہلے گھر آجائیے گا
اچھا بیگم صاحبہ جیسا آپ کہیں (زین العابدین نے ربیکہ کی طرف مسکراکر دیکھتے ہوئے جواب دیا اور پھر اپنے موبائل میں مصروف ہوگئے)
آج اریج کی سولہویں سالگرہ تھی ربیکہ صبح سے کچن میں مصروف تھی 
اریج کے چھوٹے ماموں گھر کی سجاوٹ میں مصروف تھے ربیکہ نے انھیں کل رات کو ہی اپنے گھر بلوالیا تھا 
سارے کاموں سے فارغ ہوتے ہی ربیکہ تھک کر صوفے پر جیسے گر سی گئی اور پھر آنکھیں موند لیں ابھی دومنٹ ہی گزرے ہونگے کے ربیکہ کی آنکھیں کھلیں اور وہ پریشانی سے اپنے چھوٹے بھائی تنویر کو آوازیں دینے لگی 
تنویر۔۔۔تنویر
تنویر جی باجی کہتا ہوا ربیکہ کے پاس دوڑتا ہوا آیا 
ربیکہ متفکر لہجے میں بولی 
تنویر آج اریج کا آخری ٹیسٹ تھا اس نے 3 بجے اکیڈمی سے آنا تھا ذرا دیکھنا چار بج گئے ابھی تک نہیں آئی آج اس کی سالگرہ ہے اس کا دن ہے سر نے آج بھی دیر تک روکا ہوا ہے جاؤ جلدی سے اسے لیکر آؤ 
تنویر نے موٹر بائیک کی چابی پکڑی اور تیزی سے دروازے کی جانب بڑھا
اور ہاں واپسی میں کولڈرنک کا کہتے آنا دکان والے کو 
اچھا بجو 
پونا گھنٹہ گزر گیا ابھی تک نہیں آئے دونوں کیا ہوا ہوگا
سر کا موبائل بھی آف جارہا تھا 
ربیکہ پریشانی سے کبھی گھر کے آنگن میں اور کبھی گھر کی چھت پے ٹہلتے ہوئے آدھی ہوئے جارہی تھی
چھت سے نیچے اترتے ہوئے اسے موٹر بائیک کی آواز سنائی دی تو وہ تیزی سے نیچے اتری اور دوڑتی ہوئی دروازے کی جانب بھاگی
دروازہ کھولتے ہی جب اس کی نظر تنویر پر پڑی تو وہ مزید پریشان ہوگئی کہاں چھوڑ آئے اس لڑکی کو

باجی وہ تو تین بجے کی وہاں سے نکل چکی ہے 
آپ اس کی دوستوں سے پتہ کریں

کیا دوستوں سے لیکن وہ میری اجازت کے بغیر کسی دوست کے گھر نہیں جاتی اور آج تو میری گڑیا کی سالگرہ ہے

مجھے اسے لینے چلے جانا چاہئیے تھا پتہ نہیں کیسے بھول گئی دوگلیوں کا ہی تو فاصلہ ہے
چلو میرے ساتھ دونوں دیکھ کر آتے ہیں

دروازے پر تالا ڈال کر ربیکہ بائیک پر تنویر کے ساتھ بیٹھ گئی دو گھنٹوں سے دونوں بہن بھائی اس کی اسکول اور اکیڈمی کی دوستوں کے گھر کے چکر پے چکر لگارہے تھے لیکن اریج کسی کے گھر نہیں ملی روتے بلکتے ربیکہ کا برا حال ہوگیا 

اریج کے بابا کو بھی اطلاع کردی گئی

زین العابدین نے تھانے میں رپورٹ درج کرادی اور مسجدوں میں اعلان بھی کروائے گئے لیکن کچھ پتا نہیں چلا 
ساری رات دونوں میاں بیوی دروازے پر بیٹھے رہے کوئی فون آتا دونوں چونک جاتے ربیکہ کی بہنیں اور زین العابدین کے بہن بھائی دونوں کی ڈھارس بندھاتے رہے
اگلی صبح ڈور بیل زور زور سے بجنے کی آواز کانوں پڑی اور دونوں میاں بیوی دروازے کی جانب تیزی سے دوڑے ربیکہ نے پوچھا کون ہے 
باہر سے آواز آئی پولس
زین العابدین نے جھٹ دروازہ کھولا
پولس کا ایک اہلکار ربیکہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
محترمہ آپ اندر تشریف رکھیں
اور بھائی صاحب آپ ہمارے ساتھ آئیں

زین العابدین ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے تنویر نے آواز دی میں بھی آتا ہوں بھائی

اور ربیکہ اللہ میری بچی پر رحم کر کہتے ہوئے زمین پر گر پڑی
ایک گھنٹے بعد زین العابدین کی کال آئی ربیکہ کی بہن نے فون اٹھایا ربیکہ اپنی بہن کی اڑتی رنگت دیکھ کر زور سے چیخی کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
ربیکہ کی بہن کانپتے ہوئے ربیکہ سے مخاطب ہوئی باجی بھائی کا فون تھا 
کسی نے ہماری پیاری گڑیا کی آبروریزی کرکے اسے نالے میں پھینک دیا تھا پولس کو اس کی لاش نالے سے ملی ہے 
یہ سنتے ہے ربیکہ پھر زمین پر گر گئی اور جب اسے ہوش آیا تو وہ اپنی ننھی گڑیا کے بستر پر لیٹی درد سے کراہ رہی تھی تب ہی اس کی نظر سامنے کھلونوں والی الماری میں رکھی مٹی کی گڑیا پر پڑی اور وہ سوچنے لگی کہ آہ میری نازک سی مٹی کی گڑیا کو آج کس ظالم نے توڑدیا۔۔۔
 آہ میں نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی۔۔۔۔۔
 اور پھر اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لیں۔۔۔

"مٹی کی گڑیا کے نام"

میں ننھی سی گڑیا ہوں
تم کیا جانوں میں کیا ہوں
چہکے لہکے انگنا میں
بابل کی وہ چڑیا ہوں
اسں مٹی کی شان ہوں میں
اور مما کی جان ہوں میں
بیدردی تو کیا جانے
ٹھیس لگے پر ٹوٹے جو 
میں مٹی کی گڑیا ہوں
میں مٹی کی گڑیا ہوں

قلم کار _حمیرا قریشی

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ