Ticker

6/recent/ticker-posts

ولی دکنی کی غزلوں کی تشریح : اُردو خدمت

ولی دکنی کی غزلوں کی تشریح : اُردو خدمت


یہاں ہم ولی دکنیؔ کی مشہور غزلوں کی تشریح پیش کر رہے ہیں۔آپ نیچے دی گئی غزلوں کے اشعار کی تشریح پڑھ سکتے ہیں۔

غزل
کوچہ یار عین کاسی ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے

پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے

اے صنم! تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندؤے ہر دوار باسی ہے

زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نازک اس کے جیون سناسی ہے

یہ سیہ زلف تجھ زخنداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے

جس کی گفتار میں نہیں ہیں مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے

اے ولیؔ! جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے

Wali Dakni Ki Ghazal Ki Tashreeh : Urdu Khidmat


تشریح
پہلا شعر
کوچہ یار عین کاسی ہے
جوگی دل وہاں کا باسی ہے

محبوب کا کوچہ عاشق کے لیے کسی تیرتھ استھان سے کم نہیں ہوتا ہے لہذا شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا کوچہ کاشی کی مانند ہے اور میرا دل وہاں کا رہنے والا ہے۔ کاشی ہندوؤں کا ایک تیرتھ استھان ہے۔ شاعر نے محبوب کے کوچے کو کاشی سے تشبیہ دی ہے۔

دوسرا شعر
پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی جدائی کی مایوسی کے سبب سے میرے دل پر ہمیشہ اداسی چھائی رہتی ہے۔


تیسرا شعر
اے صنم! تجھ جبیں اپر یہ خال
ہندؤے ہر دوار باسی ہے

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب تمہارے ماتھے پر جو یہ سیاہ تِل ہے یہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہندو ہردوار پر باس کر رہا ہو۔محبوب کی پیشانی کو شاعر نے ہردوار اور تِل کو ہندو سے تشبیہ دی ہے اور وہ اس لئے کہ ہندو کے معنی سیاہ کے بھی ہوتے ہیں۔


چوتھا شعر
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نازک اس کے جیون سناسی ہے

زُلفوں میں چونکہ کے بل ہوتے ہیں اس لیے انہیں اکثر دریا کی لہروں سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تمہاری زُلف دریاے جمنا کی موج کی طرح ہے اور اس کے نزدیک جو تِل ہے وہ جیسے کوئی جمنا کے کِنارے بیٹھا سنیاسی ہو۔(جمنا بھی ہندؤں میں مُتبرک دریا مانا جاتا ہے)


پانچواں شعر
یہ سیہ زلف تجھ زخنداں پر
ناگنی جیوں کنوے پہ پیاسی ہے

اس شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری ٹھوڑی تک آئی یہ زلف ایسی بے قرار ہے جیسے کوئی ناگنی کنویں پر پیاسی ہو۔ سانپ میں ویسے ہی قرار نہیں ہوتا اس پر پیاسا ہو اور پانی سامنے ہو مگر اس تک پہنچ نہ پائے تو کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سانپ سے زلف کوتشبیہ دیتے ہیں مگر جس طرح ولیؔ نے پیا سے سانپ سے محبوب کی بے قرار زلف کوتشبیہ ہے۔ یہ بے مثال ہے۔

چھٹا شعر
جس کی گفتار میں نہیں ہیں مزا
سخن اس کا طعام باسی ہے

شاعر کہتا ہے کہ جس کے کلام میں تاثیر نہیں ہے، مزہ نہیں ہے۔ اس کا کلام باسی کھانے کی طرح ہے کہ وہ کہ جس طرح باسی کھانا بے مزہ ہوتا ہے اس طرح اس کا کام بھی مزہ نہیں دیتا۔


ساتواں شعر
اے ولیؔ! جو لباس تن پہ رکھا
عاشقاں کے نزک لباسی ہے

غزل کے مقطع میں شاعر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ عشق کو آرائش سے مطلب نہیں ہوتا۔ اس کی پہچان تو اس کا چاک گربیان ہوتا ہے۔لہذا جو شخص بہتر لباس کا خیال رکھتا ہے وہ عاشقوں کے نزدیک عاشق نہیں ہے بلکہ وہ تو دنیاوی، دنیا کا باشندہ ہے، جس کو عشق سے سروکار نہیں۔



ولی دکنی کی غزلوں کی تشریح

غزل
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گُل کوں کرتی ہے گُلاب آہستہ آہستہ

عجب کچھ لُطف رکھتا ہے شب خلوت میں گلروسوں
خطاب آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ

مرے دِل کوں کیا بےخود،تیری آنکھیاں نے آخر کوں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

ادا و نازسوں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ

وؔلی مجھ دِل میں آتا ہے خیالِ یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ

تشریح
پہلا شعر
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گُل کوں کرتی ہے گُلاب آہستہ آہستہ

شاعر کہتا ہے کہ میرے عشق نے اس ظالم محبوب کو آہستہ آہستہ آب کردیا۔ یعنی اس کی تلخی اور سختی کو نرمی میں تبدیل کردیا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح آگ کی آنچ سے پھول عرق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہمارے عشق کی تپش نے بھی اس ظلم کرنے والے محبوب کو کرم کرنے پر مجبور کر دیا۔

دوسرا شعر

عجب کچھ لُطف رکھتا ہے شب خلوت میں گلروسوں
خطاب آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ

شاعر کہتا ہے کہ تنہائی کی رات میں اس پھول جیسا چہرہ رکھنے والے یعنی خُوب صُورت محبوب کے ساتھ آہستہ آہستہ یعنی دھیرے دھیرے کلام کرنا اور اسی دھیمےاور نرم لہجے میں اس کا جواب دینا، کچھ ایسا لُطف رکھتا ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔


تیسرا شعر

مرے دِل کوں کیا بےخود،تیری آنکھیاں نے آخر کو ں
کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میرے دل کو تمہاری آنکھوں نے آخرکار ایسا بے ہوش کر دیا کہ جیسے دھیرے دھیرے شراب اپنا اثر دکھاتی ہے اور پینے والوں کو بے خود کر دیتی ہے۔


چوتھا شعر

ادا و نازسوں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوں
کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ

شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب جس کی پیشانی مِثلِ آفتاب روشن ہے، اس طرح ناز و انداز سے اپنے گھر سے نکلتا ہے جیسے دھیرے دھیرے مشرق سے سُورج طلوع ہوتا ہے۔


پانچواں شعر

وؔلی مجھ دِل میں آتا ہے خیالِ یار بے پروا
کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ

شاعر کہتا ہے کہ میرے دل میں میرے محبوب کا خیال اس طرح بے روک ٹوٹ آتا ہے جیسے دھیرے دھیرے آنکھوں میں خواب آتا ہے دل میں محبوب کے خیال کو آنکھوں میں خواب آنے سے تشبیہ دی ہے جو واقعی نادر تشبیہ ہے۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ