Ticker

6/recent/ticker-posts

مطلع، حسنِ مطلع، مقطع اور قافلہ ردیف کی تعریف

مطلع، حسنِ مطلع، مقطع اور قافلہ ردیف کی تعریف

آج کی تحریر میں ہم اصناف سخن کے متعلق اہم سوالات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ صنف شاعری میں مطلع حسن مطلع مقطع اور ردیف اور قافیہ سے کیا مراد ہے اس کے ساتھ ہی ہم ان تمام چیزوں کی مثالیں بھی شعر کے ذریعے دیں گے۔

مطلع کیا ہے؟ مطلع کی تعریف

غزل، قصیدے اور نظم کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے۔ مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ردیف ہوتے ہیں۔ قدما اپنی غزلوں میں صرف ایک مطلع کہتے تھے، لیکن متاخرین نے کئی کئی مطلعے کہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک غزل کا مطلع ملاحظہ ہو:

اے ستمگر نہ یوں ستا مجھ کو
حسن کا جلوہ اب دکھا مجھ کو

آپ دیکھیں گے کہ مندرجہ ہالا شعر غزل کا مطلع ہے اس لیے کہ اس کے دونوں مصرے ہم وزن، ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں۔

حسنِ مطلع کیا ہے؟ حسنِ مطلع کی تعریف

جب کسی غزل میں دو مطلعے ہوں، تو دوسرے کو حسنِ مطلع کہتے ہیں۔ مثلاً ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں:

عاشق بنا ہوں عشق کے دربار کے لئے
جاں سے گزر بھی جاؤں گا میں یار کے لئے

ملتی نہیں دوا کہیں بیمار کے لئے
پھرتا ہوں در بہ در میں ترے پیار کے لئے

مقطع کیا ہے؟ مقطع کی تعریف

غزل یا قصیدے کا وہ شعر جس میں شاعر  بالعموم اپنا تخلص یا نام استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر ذیل کا شعر ملاحظہ ہو:

دیکھ کر تجھ کو یوں لگا بسملؔ
زندگی دیتی ہے صدا مجھ کو

قافیہ سے کیا مراد ہے؟ قافیہ کی تعریف

قافیہ عربی زبان کے لفظ قفو سے بنا ہے۔ قافیہ کے معنی پیروی کرنے اور پیچھے آنے والے کے ہیں۔اردو ادب میں قافیہ ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جو اشعار میں الفاظ کے ساتھ غیر مسلسل طورپر آخر میں بار بار آتے ہیں۔یہ الفاظ بعض وقت غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں مگر ہٹا دیئے جانے پر بھی خلا پیدا کر جاتے ہیں۔اس لیے ترنم اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے غزل میں قافیہ کا استعمال لازم و ملزوم تصور کیا جاتا ہے۔ ۔قوافی کو عرفِ عام میں ہم قافیہ الفاظ کہا جاتا ہے۔، اس کی ایک خوبصورت مثال ملاحظہ فرمائیں:

آج پھر اک غزل سناتا ہوں
درد دل کا زباں پہ لاتا ہوں

مندرجہ بالا شعر میں ۔سناتا۔ اور ۔لاتا۔ قوافی ہیں۔

ردیف کا مطلب ردیف کی تعریف

ردیف کے معنی گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کے ہیں۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد قافیہ کے بعد آنے والے وہ الفاظ ہیں جو مکرر آتے ہوں۔ اور یکساں بھی ہوں، مگر ردیف ہر مصرعے میں آئے یہ بھی ضروری نہیں ہوتا۔ یہ بعض وقت غزل کے مصرعہِ ثانی میں تکرار سے بھی آتا ہے۔ اس کی ایک اور تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ قافیہ کے بعد جو الفاظ مسلسل تکرار سے آئیں ردیف کہلاتے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:

گوہرِ آبدار باقی ہے
زندگی پُر بہار باقی ہے

اس شعر میں دونوں مصرعوں میں موجود ۔ باقی ہے۔ ردیف ردیف کہلاتا ہے۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ