Ticker

6/recent/ticker-posts

سلاست و بلاغت کی آئینہ دار اور شکوہِ قلم کا اعتبار ہے

سلاست و بلاغت کی آئینہ دار اور شکوہِ قلم کا اعتبار ہے

ارحم علی شامی کی نظم “ طرزِ شکوہ” زبان و بیان کے اعتبار سے موجِ رواں ہے۔ شعلہ بجاں ہے۔ سلاست و بلاغت کی آئینہ دار اور شکوہِ قلم کا اعتبار ہے۔ آپ کو عربی اور فارسی زبان پر دسترس حاصل ہے جس کی بدولت اشعار میں چاشنی اور روایتی اسلوب کی شیرینی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ 
 جہاں تک “طرزِ شکوہ “ کے موضوعات کا تعلّق ہے تو شاعر پر علامہ اقبال کی شاعری کا اثر نمایاں ہے۔ علامہ اقبال کی نظم “ شکوہ” اور “ جوابِ شکوہ” کا رنگ و آہنگ اِس نظم میں نمایاں ہے۔ یہ نظم مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ ہے۔ اسلام کے زریّں اصولوں کی ترجمان اور عشقِ رسول صلعم کی داستان ہے۔ اِس نوعمری میں اتنا پختہ کلام اور فکر آمیز و فکر انگیز پیام کسی علمی اور ادبی معجزہ سے کم نہیں۔ اِس پُرسوز و دلدوز نظم کی ترجمانی علامہ اقبال کے اِس بلاغت نظام شعر میں پنہاں ہے؀
در دلِ مسلم مقامِ مصطفٰی است 
آبروۓ ما ز نامِ مصطفٰی است 
ڈاکٹر مقصود جعفری
نیو یارک
۱۵ فروری ۲۰۲۲

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ