Ticker

6/recent/ticker-posts

یو پی کے انتخابی پس منظر میں ایک نظم

یو پی کے انتخابی پس منظر میں ایک نظم

عمران راقم

یو پی کے انتخابی پس منظر میں ایک نظم
 
برا آغاز ہے تیرا برا انجام ہونا ہے
تجھے برباد ہونا ہے تجھے ناکام ہونا یے

تری منزل کی چاہت نے تجھے گمراہ کر ڈالا
تضادات نظرنےخود تجھےبد خواہ کر ڈالا
 چمن بدنام ہوتا ہے گگن بدنام یوتا ہے
کہ اس فرقہ پرستی سے وطن بدنام ہوتا ہے

سیاست یہ تری پھر ہار میں تبدیل کر دےگی
تری فرقہ پرستی ہی تری تذلیل کردےگی
 
فضا میں اڑتے پنچھی ہر اک پر کاٹ دیتی ہے
سیاست بے زباں لوگوں کےسر بھی کاٹ دیتی ہے
رخ منحوس پریہ رنگ انساں کی بدولت ہے
ملی ہے سلطنت جو یہ مسلماں کی بدولت ہے
 
نہ اترا اس قدر تو آج پھر اس کامیابی پر
اتر آی ہے اب دنیاتری یہ بے نقابی پر
 
بجایا جا رہا ہے ساز جو طرفہ تماشہ ہے
تری بربادیوں کا اصل میں یہ اک خلاصہ ہے
پڑا جو وقت تو آکر ہمیشہ سر جھکاتا ہے
پھر اس کے بعد اپنی انگلیوں پر یہ نچاتا ہے
 
بناتا خود سے ہے قانون اور ترمیم کرتا ہے
جہاں جاتا ہے دل انسان کے تقسیم کرتا ہے
 
ستم ایجاد ہے خود جو تماشہ خوب کرتا ہے
ہر اک فعل ستم سے وہ مجھے منسوب کرتا ہے
لہو اس گودھرا گجرات میں کس نے بہایا تھا
قیامت خیز منظر ملک کو کس نے دکھایا تھا

مخالف سچ کو شرمندہ سر بازار کرتا ہے
خطا تو الاماں اس ملک کا سردار کرتا ہے

ہر اک لمحہ وطن کی دل کشی خطرے میں رہتی ہے
تری فطرت سے لاکھوں زندگی خطرے میں رہتی ہے
سیاست ظالموں کی جس گھڑی ہشیار بنتی ہے
نکمے اور نٹھلے کی تبھی سرکار بنتی ہے

اپاہج ٫اونگھتی ٫لنگڑی٫تری بہری قیادت کو
 مسرت کامرانی ہو مبارک اس سیاست کو

نہ یہ روشن دیا اک بھی کسی کے کام آئےگا
مگرمچھ کی طرح لاشوں پہ جوآنسو بہائےگا
سیاسی کھوکھلے وعدے مسلماں کا مقدر ہے
نہیں یہ بات پوشیدی سبھی پریہ منور ہے

کہاں اب کوئی بھی سچا مسلمانوں کارہبر ہے
ہمارے واسطے برچھی ہےہر ہاتھںوں میں خنجرہے

فقط خود کو بچانے کی وہ ہر تدبیر رکھتے ہیں
سیاسی ذہن ہیں جتنےسبھی بس تیر رکھتے ہیں
ہوئی بیدار مثل صبح جو سرکار کیسی ہے
ہر اک کے ذہن پہ لٹکی یوئی تلوار کیسی ہے

برے دن دور ہوں گے خواب وہ ایسا دکھاتا یے
شکم پر باندھ کر پتھر ٫ بشررکشہ چلاتا یے

جسے کہتے ہیں ناگن وہ تو اک چہرہ بدلتی ہے
سیاست تو طوائف ہے کئی کوٹھا بدلتی ہے
یہاں مشکل سے ہی انسان اہنے تن چھپاتے ہیں
کروڑوں کے مرے رہبر مگر کپڑے سلاتے ہیں

شبانہ روز ہم رستے ہوئےہر زخم سیتے ہیں
مسیحا ییں جو میرے جسم کے بس خون پیتے ہیں

لکھا جو سچ کسی نےتویہاں اخبار جلتا ہے
وطن میں جبرواستبداد کا بازار چلتا ہے 
مسیحا بن کےجو قاتل زمیں پر راج کرتا ہے 
ستم پیشہ وہی ظالم وطن تاراج کرتا ہے 

کہاں ہے چائی کی خوشبو ٫ ہری پتی کی ہریالی 
عیاں ہے اسکے چہرے پرتو لاکھوں خون ک�

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ