یو پی کے انتخابی پس منظر میں ایک نظم
عمران راقم
یو پی کے انتخابی پس منظر میں ایک نظم
برا آغاز ہے تیرا برا انجام ہونا ہے
تجھے برباد ہونا ہے تجھے ناکام ہونا یے
تری منزل کی چاہت نے تجھے گمراہ کر ڈالا
تضادات نظرنےخود تجھےبد خواہ کر ڈالا
چمن بدنام ہوتا ہے گگن بدنام یوتا ہے
کہ اس فرقہ پرستی سے وطن بدنام ہوتا ہے
سیاست یہ تری پھر ہار میں تبدیل کر دےگی
تری فرقہ پرستی ہی تری تذلیل کردےگی
فضا میں اڑتے پنچھی ہر اک پر کاٹ دیتی ہے
سیاست بے زباں لوگوں کےسر بھی کاٹ دیتی ہے
رخ منحوس پریہ رنگ انساں کی بدولت ہے
ملی ہے سلطنت جو یہ مسلماں کی بدولت ہے
نہ اترا اس قدر تو آج پھر اس کامیابی پر
اتر آی ہے اب دنیاتری یہ بے نقابی پر
بجایا جا رہا ہے ساز جو طرفہ تماشہ ہے
تری بربادیوں کا اصل میں یہ اک خلاصہ ہے
پڑا جو وقت تو آکر ہمیشہ سر جھکاتا ہے
پھر اس کے بعد اپنی انگلیوں پر یہ نچاتا ہے
بناتا خود سے ہے قانون اور ترمیم کرتا ہے
جہاں جاتا ہے دل انسان کے تقسیم کرتا ہے
ستم ایجاد ہے خود جو تماشہ خوب کرتا ہے
ہر اک فعل ستم سے وہ مجھے منسوب کرتا ہے
لہو اس گودھرا گجرات میں کس نے بہایا تھا
قیامت خیز منظر ملک کو کس نے دکھایا تھا
مخالف سچ کو شرمندہ سر بازار کرتا ہے
خطا تو الاماں اس ملک کا سردار کرتا ہے
ہر اک لمحہ وطن کی دل کشی خطرے میں رہتی ہے
تری فطرت سے لاکھوں زندگی خطرے میں رہتی ہے
سیاست ظالموں کی جس گھڑی ہشیار بنتی ہے
نکمے اور نٹھلے کی تبھی سرکار بنتی ہے
اپاہج ٫اونگھتی ٫لنگڑی٫تری بہری قیادت کو
مسرت کامرانی ہو مبارک اس سیاست کو
نہ یہ روشن دیا اک بھی کسی کے کام آئےگا
مگرمچھ کی طرح لاشوں پہ جوآنسو بہائےگا
سیاسی کھوکھلے وعدے مسلماں کا مقدر ہے
نہیں یہ بات پوشیدی سبھی پریہ منور ہے
کہاں اب کوئی بھی سچا مسلمانوں کارہبر ہے
ہمارے واسطے برچھی ہےہر ہاتھںوں میں خنجرہے
فقط خود کو بچانے کی وہ ہر تدبیر رکھتے ہیں
سیاسی ذہن ہیں جتنےسبھی بس تیر رکھتے ہیں
ہوئی بیدار مثل صبح جو سرکار کیسی ہے
ہر اک کے ذہن پہ لٹکی یوئی تلوار کیسی ہے
برے دن دور ہوں گے خواب وہ ایسا دکھاتا یے
شکم پر باندھ کر پتھر ٫ بشررکشہ چلاتا یے
جسے کہتے ہیں ناگن وہ تو اک چہرہ بدلتی ہے
سیاست تو طوائف ہے کئی کوٹھا بدلتی ہے
یہاں مشکل سے ہی انسان اہنے تن چھپاتے ہیں
کروڑوں کے مرے رہبر مگر کپڑے سلاتے ہیں
شبانہ روز ہم رستے ہوئےہر زخم سیتے ہیں
مسیحا ییں جو میرے جسم کے بس خون پیتے ہیں
لکھا جو سچ کسی نےتویہاں اخبار جلتا ہے
وطن میں جبرواستبداد کا بازار چلتا ہے
مسیحا بن کےجو قاتل زمیں پر راج کرتا ہے
ستم پیشہ وہی ظالم وطن تاراج کرتا ہے
کہاں ہے چائی کی خوشبو ٫ ہری پتی کی ہریالی
عیاں ہے اسکے چہرے پرتو لاکھوں خون ک�
0 टिप्पणियाँ