مرزا غالب کا خط بنام منشی نبی بخش حقیر
مرزا غالب کے خطوط اردو ادب میں ایک نیا باب رقم کرتے ہیں۔ ان کی نثر کی روانی، بے تکلفی، طنز و مزاح، اور ادب کی باریکیوں نے اردو نثر کو ایک منفرد اور فطری انداز بخشا۔ غالب کے خطوط نہ صرف ان کے ذاتی خیالات اور تجربات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان میں ان کے وقت کے معاشرتی اور ادبی حالات کی جھلک بھی نمایاں نظر آتی ہے۔
منشی نبی بخش حقیر ایک معروف شاعر اور نثرنگار تھے جو غالب کے معاصرین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ غالب کے مداح بھی تھے اور ان کے خیالات و مشوروں سے استفادہ کرتے تھے۔ غالب نے انہیں کئی خطوط لکھے، جن میں شاعری، زبان و ادب، اور زندگی کے دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
مرزا غالب کا خط منشی نبی بخش حقیر کے نام
بنام: منشی نبی بخش حقیر
دلی، 1861
برادرم نبی بخش،
تمہارا خط ملا، پڑھ کر خوشی ہوئی۔ تم نے اپنی غزلیں بھیجی ہیں اور میری رائے پوچھی ہے۔ بھائی، میں کون ہوتا ہوں فیصلہ کرنے والا، مگر جو کچھ دل کو محسوس ہوا، وہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تمہاری شاعری میں خیال عمدہ اور جذبات میں سچائی ہے، مگر زبان میں مزید صفائی کی ضرورت ہے۔
شعر وہی زندہ رہتا ہے جس میں سادگی اور سچائی ہو۔ پیچیدہ الفاظ اور بےجا صنعت گری سے شاعری میں وہ لطف نہیں رہتا جو دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے سیدھے سادے الفاظ میں ہوتا ہے۔ تم نے چند اشعار میں زور دینے کی کوشش کی ہے، مگر یاد رکھو، شاعری میں زور زبردستی سے زیادہ قدرتی بہاؤ ضروری ہے۔
یہاں دلی کا حال تم نے پوچھا ہے تو سنو، پہلے جیسے دن کہاں! زندگی اب قرض اور فکروں میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ دلی کی رونق جیسے خواب ہو گئی ہے، لوگ بدل چکے ہیں، اور محفلوں کی روشنی مدھم پڑ چکی ہے۔ مگر یہ سب دنیا کے کھیل ہیں، ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کے بعد نیا چراغ جلتا ہے۔
تم نے میری طبیعت کا بھی ذکر کیا۔ بھئی، طبیعت تو اب کتابوں میں ہی پناہ ڈھونڈتی ہے۔ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے، مگر کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ نے بھی روٹھ جانا سیکھ لیا ہے۔ مگر پھر سوچتا ہوں کہ یہی وقت کا تقاضا ہے، اور یہی دنیا کا دستور۔
تمہارے آئندہ خط کا منتظر رہوں گا۔ شاعری میں مزید بہتری لانے کی کوشش کرو، اور ہاں، لفظوں کے انتخاب میں احتیاط برتنا، کیونکہ شاعری وہی ہوتی ہے جو سیدھی دل پر اثر کرے۔
والسلام،
تمہارا خیراندیش،
مرزا نوشہ (غالب)
غالب کے خطوط کی نمایاں خصوصیات
مرزا غالب کے خطوط اردو نثر کے لیے ایک انقلابی قدم تھے۔ ان میں درج ذیل خصوصیات نمایاں ہیں:
فطری اور بے تکلف انداز – غالب نے رسمی، روایتی اور مصنوعی طرزِ تحریر کو ترک کرکے عام فہم اور رواں دواں نثر لکھی۔
ادبی اصلاح – ان کے خطوط میں شاعری کی باریکیوں، زبان کے استعمال، اور خیالات کی بلندی پر خاص زور دیا گیا ہے۔
مزاح اور طنز – غالب کے خطوط میں ان کے مخصوص مزاح اور طنزیہ لہجے کی جھلک ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
زندگی کے تجربات اور فلسفہ – وہ صرف شاعری اور ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ زندگی کے نشیب و فراز، وقت کے حالات، اور اپنی مشکلات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
اردو نثر کی ترقی میں کردار – غالب کے خطوط نے اردو نثر کو محض خیالات کے اظہار سے نکال کر ایک مستقل ادبی صنف بنا دیا۔
نتیجہ
مرزا غالب کا خط منشی نبی بخش حقیر کے نام ان کے مخصوص اندازِ تحریر کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں جہاں شاعری کی باریکیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہیں دلی کے زوال اور زندگی کے تلخ حقائق کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ غالب کے یہ خطوط اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کیونکہ انہوں نے اردو نثر کو ایک نئی جہت بخشی اور اسے سادہ، بے ساختہ اور فطری بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
0 टिप्पणियाँ