Ticker

6/recent/ticker-posts

سنیما کا عشق – پطرس بخاری کا مشہور انشائیہ

سنیما کا عشق – پطرس بخاری کا مشہور انشائیہ

پطرس بخاری اردو ادب کے ان چند مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے طنز و مزاح کو نفاست، شائستگی اور گہرے مشاہدے کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے انشائیے نہ صرف ہلکے پھلکے اور مزاحیہ ہوتے ہیں بلکہ انسانی نفسیات اور معاشرتی رویوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کا مشہور انشائیہ "سنیما کا عشق" بھی اسی خوبی کا حامل ہے، جس میں انہوں نے سنیما سے اپنی بے پناہ محبت، جذباتی وابستگی اور سنیما بینوں کے دلچسپ رویوں کو نہایت چلبلا انداز میں بیان کیا ہے۔

یہ انشائیہ ایک خوبصورت مزاحیہ مضمون ہے جو نہ صرف سنیما کے دیوانوں کی نفسیات کو پیش کرتا ہے بلکہ سنیما اور فلموں کی کشش کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

خلاصہ

ابتدائیہ: سنیما سے عشق کا آغاز

پطرس بخاری اپنے اس انشائیے میں سنیما سے اپنے عشق کو کسی حقیقی محبت کی طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ محبت بے لوث اور سچی تھی، اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، یہ عشق بڑھتا چلا گیا۔

پطرس بخاری کا سنیما کا عشق صرف تفریح تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ سنیما کو ایک ایسی دنیا سمجھتے تھے جو حقیقت سے زیادہ دلکش اور حسین تھی۔ وہ فلموں کی کہانیوں، کرداروں اور مناظر میں اتنا محو ہو جاتے کہ حقیقت اور فکشن کے درمیان فرق محسوس نہ ہوتا۔

سنیما کے دیوانوں کی نفسیات

پطرس بخاری فلم بینوں کی نفسیات کو بڑی دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سنیما کے دیوانے ہر وقت نئی فلموں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، ہر ہفتے نئی فلم دیکھنا ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے، اور وہ فلم دیکھنے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتے ہیں۔

وہ اپنی نوجوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

• فلم دیکھنے کے لیے وہ کبھی امتحانات کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

• دوستوں سے ادھار لے کر ٹکٹ خریدنا عام بات تھی۔

• کبھی کبھی وہ کھانے پینے کے پیسے بھی فلم دیکھنے پر خرچ کر دیتے تھے۔

• جھوٹے بہانے بنا کر گھروں سے نکلنا، تاکہ فلم دیکھی جا سکے۔

یہ سب باتیں قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں، کیونکہ بیشتر فلم بینوں نے کبھی نہ کبھی یہ حرکتیں ضرور کی ہوتی ہیں۔


سنیما کا تجربہ

پطرس بخاری نہایت دلکش انداز میں سنیما کے اندر کے ماحول کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلم دیکھنے سے پہلے ایک خوشگوار جوش و خروش ہوتا ہے، جیسے کوئی بہت بڑا کام کرنے جا رہے ہوں۔

• فلم شروع ہوتے ہی تماشائی پوری دنیا کو بھول کر پردے پر چلنے والی کہانی میں کھو جاتے ہیں۔

• ہر ڈائیلاگ پر تالیاں، ہر سین پر جذباتی ردِعمل، اور کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو بہنا عام بات ہوتی ہے۔

• کچھ لوگ فلم دیکھنے کے دوران تبصرے کرنے میں مصروف رہتے ہیں، جیسے فلم ان کے بغیر نامکمل ہو جائے گی۔

پطرس بخاری اس پورے ماحول کی منظر کشی یوں کرتے ہیں کہ قاری خود کو کسی سنیما ہال میں بیٹھا ہوا محسوس کرتا ہے۔

فلم ختم ہونے کے بعد کا احوال

جب فلم ختم ہو جاتی ہے، تو ایک عجیب اداسی اور خالی پن محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی حسین خواب اچانک ٹوٹ گیا ہو۔

• فلم ختم ہوتے ہی حقیقت دوبارہ آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے، اور یوں لگتا ہے جیسے اصل زندگی کم دلچسپ اور کم رنگین ہے۔

• کچھ دیر کے لیے دل بے چین رہتا ہے، اور ہر لمحہ فلم کے سین یاد آتے رہتے ہیں۔

• کئی دنوں تک فلم کی کہانی اور مناظر ذہن میں گھومتے رہتے ہیں، اور دل چاہتا ہے کہ دوبارہ وہی فلم دیکھی جائے۔

یہ تمام جذبات ہر اس شخص کو محسوس ہوتے ہیں جو کبھی نہ کبھی کسی فلم میں حد سے زیادہ کھو چکا ہو۔


سنیما کے نقصانات

پطرس بخاری اس انشائیے میں سنیما کے کچھ مزاحیہ نقصانات بھی گنواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

• سنیما کا عشق بعض اوقات تعلیم پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

• فلموں کے دیوانے گھر والوں کو نظرانداز کرنے لگتے ہیں۔
• کچھ لوگ ہر چیز کو فلم کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، اور حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں۔

• فلموں میں دکھائی جانے والی رومانوی کہانیوں کو سچ مان لینا بھی ایک بڑی غلطی ہوتی ہے۔

یہ تمام باتیں وہ لطیف مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہیں، جو قاری کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔


ادبی جائزہ

1. طنز و مزاح کا خوبصورت امتزاج

پطرس بخاری نے اس انشائیے میں طنز اور مزاح کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ فلم بینوں کی جذباتی وابستگی، سنیما ہال کے ماحول، اور فلم ختم ہونے کے بعد کی کیفیات کو اتنی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری بار بار ہنسنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

2. سادہ اور شگفتہ زبان

پطرس بخاری کی زبان نہایت سادہ، روانی سے بھرپور اور عام فہم ہے۔ وہ مشکل الفاظ یا ثقیل جملوں کے بجائے سادہ اور روزمرہ کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، جو ان کے انشائیے کو مزید دلکش بنا دیتا ہے۔

3. حقیقت پسندی

یہ انشائیہ محض مزاحیہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ پطرس بخاری نے فلم بینوں کی عادات، سنیما کے ماحول، اور فلموں کے اثرات کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

4. جذباتی وابستگی

یہ انشائیہ ہر اس قاری کو متاثر کرتا ہے جو کبھی نہ کبھی فلموں کا دیوانہ رہا ہو۔ پطرس بخاری کی تحریر قاری کے ذاتی تجربات سے جڑ جاتی ہے، اور یہی اس انشائیے کی سب سے بڑی خوبی ہے۔


نتیجہ

"سنیما کا عشق" پطرس بخاری کا ایک شاندار، مزاحیہ اور حقیقت پسندانہ انشائیہ ہے جو فلم بینوں کی نفسیات، سنیما کے دیوانوں کے جذبات، اور فلموں کے اثرات کو دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہے۔

یہ انشائیہ نہ صرف ہنسانے والا ہے بلکہ انسانی جذبات، عادات اور فلموں کی کشش پر ایک گہری نظر بھی ڈالتا ہے۔ پطرس بخاری کے سادہ مگر چٹکلہ دار انداز نے اسے اردو ادب کے بہترین انشائیوں میں شامل کر دیا ہے۔

یہ انشائیہ پڑھنے کے بعد قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ اپنے ماضی کے فلمی تجربات کو یاد کر کے مسکرانے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی اس انشائیے کی سب سے بڑی کامیابی ہے!

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ