تعصب – سر سید احمد خان کے نظریات اور خیالات
تعصب کی تعریف اور اس کے اثرات
تعصب (Prejudice) ایک ایسی منفی ذہنیت کا نام ہے جو کسی بھی گروہ، مذہب، نسل، زبان، یا ثقافت کے بارے میں بے بنیاد خیالات، غلط فہمیوں اور نفرت پر مبنی سوچ پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے چند اہم اثرات درج ذیل ہیں:
معاشرتی تقسیم – تعصب کی وجہ سے معاشرے میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں، جس سے ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔ناانصافی – اگر تعصب بڑھ جائے تو انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ لوگ دوسروں کو ان کی اصل صلاحیتوں کی بجائے اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔
علم اور تحقیق کا زوال – ایک متعصب معاشرہ کھلے ذہن سے سوچنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے، اور نئی تحقیق و ترقی میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
سر سید احمد خان اور تعصب کے خلاف جدوجہد
سر سید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ وہ ایک حقیقت پسند انسان تھے جو ہمیشہ عقلی اور سائنسی سوچ کو فروغ دینے پر زور دیتے تھے۔ ان کے خیالات میں تعصب کی شدید مذمت کی گئی ہے، اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتے رہے کہ وہ اپنی ترقی کے راستے میں تعصب کو رکاوٹ نہ بننے دیں۔
1. مذہبی تعصب کے خلاف موقف
سر سید احمد خان کا سب سے اہم پیغام یہ تھا کہ مذہب کو تعصب اور دشمنی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ان کے نزدیک ہر مذہب کا احترام ضروری ہے، اور دوسروں کے عقائد پر حملہ کرنا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں:
"ہمیں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف تعصب نہیں رکھنا چاہیے۔ ہر مذہب سچائی اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے، اور ہمیں دوسروں کے عقائد کا احترام کرنا چاہیے۔"
2. تعلیمی میدان میں تعصب کی مذمت
سر سید احمد خان کا سب سے بڑا کارنامہ مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کا فروغ تھا۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ اگر وہ جدید تعلیم حاصل نہیں کریں گے، تو وہ ہمیشہ پیچھے رہ جائیں گے۔
لیکن اس راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تعصب تھا۔ مسلمانوں میں یہ نظریہ عام تھا کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا دین سے دوری کے مترادف ہے۔ سر سید احمد خان نے اس غلط سوچ کو ختم کرنے کے لیے زبردست جدوجہد کی۔
ان کا کہنا تھا:
"اگر مسلمان جدید تعلیم سے محروم رہیں گے تو وہ ہمیشہ غلام بنے رہیں گے۔ ہمیں اپنی ترقی کے لیے ہر طرح کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، چاہے وہ مشرقی ہو یا مغربی۔"
3. سیاسی تعصب کے خلاف نظریہ
سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کے بجائے تعلیم اور ترقی پر توجہ دیں۔ ان کے نزدیک جذباتی سیاست اور تعصب مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچا سکتا تھا۔
ان کا مشہور قول ہے:
"اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری قوم ترقی کرے، تو اپنی سیاسی اور سماجی زندگی کو جذباتیت اور تعصب سے آزاد کرو۔"
یہ بات اس وقت کے کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی، اور بعض نے انہیں انگریزوں کا حمایتی بھی کہا، مگر بعد میں تاریخ نے ثابت کیا کہ سر سید کا راستہ ہی مسلمانوں کی ترقی کا اصل راستہ تھا۔
سر سید احمد خان کی کتابوں میں تعصب پر خیالات
سر سید احمد خان نے اپنی تحریروں میں تعصب کے خلاف کھل کر لکھا۔ ان کی چند مشہور کتابیں جن میں انہوں نے تعصب کے نقصانات پر روشنی ڈالی:
"آثار الصنادید" – اس کتاب میں انہوں نے تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے معروضی اور حقیقت پسندانہ خیالات پیش کیے۔
"اسباب بغاوت ہند" – اس کتاب میں انہوں نے 1857 کی جنگ کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے بتایا کہ تعصب اور غلط فہمیوں نے ہندوستان میں بغاوت کو ہوا دی۔
آج کے دور میں سر سید احمد خان کے نظریات کی اہمیت
اگر ہم آج کے دور پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ تعصب کا مسئلہ آج بھی اسی شدت سے موجود ہے۔ دنیا بھر میں:
مذہبی تعصب کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔سیاسی تعصب کی وجہ سے قومیں تقسیم ہو چکی ہیں۔
تعلیمی تعصب کی وجہ سے جدید تعلیم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
نتیجہ
سر سید احمد خان نے تعصب کو انسانی ترقی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور ہمیشہ مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ جذبات اور تعصب کی جگہ عقل اور تعلیم کو اپنائیں۔ ان کے نظریات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اگر ہم حقیقی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں ہر قسم کے تعصب کو ختم کر کے علم، تحقیق، اور رواداری کو فروغ دینا ہوگا۔
سر سید احمد خان کے یہ الفاظ آج بھی ہمارے لیے ایک سبق ہیں:
"اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری قوم دنیا میں عزت پائے، تو تعصب کو چھوڑ دو اور تعلیم کو اپنا ہتھیار بناؤ۔"
0 टिप्पणियाँ