عید پر اشعار بقر عید پر اشعار عید مبارک شاعری
مل رہی ہے تو ایک سال کے بعد
عید ائی ہے ایک سال کے بعد
اردو خدمت
عید کا چاند تم نے دیکھ لیا
چاند کی عید ہو گئی ہوگی
ادریس آزاد
مجھ خستہ دل کی عید کا کیا پوچھنا حضور
جن کے گلے سے آپ ملے ان کی عید ہے
بیدار شاہ وارثی
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
قمر بدایونی
سب سے ہوئے وہ سینہ بہ سینہ ہم سے ملایا خالی ہاتھ
عید کے دن جو سچ پوچھو تو عید منائی لوگوں نے
پرنم الہ آبادی
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
ظفر اقبال
عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں
جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار
ابراہیم عاجزؔ
عید مبارک شاعری اردو
ہم نے تجھے دیکھا نہیں کیا عید منائیں
جس نے تجھے دیکھا ہو اسے عید مبارک
لیاقت علی عاصم
ہو کے خوش کٹواتے ہیں اپنے گلے
عاشقوں کی عید قرباں اور ہے
امیر مینائی
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
امجد اسلام امجد
کل غیر کے دھوکے میں وہ عید ملے ہم سے
کھولی بھی تو دشمن نے تقدیر ہم آغوشی
بیدم شاہ وارثی
عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
نامعلوم
کریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے
ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے
اوگھٹ شاہ وارثی
فلک پہ چاند ستارے نکلتے ہیں ہر شب
ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں
اکبر وارثی میرٹھی
دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال
وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے
نامعلوم
ابر تمہارے کوں جو ہے بہ شکل ہلال عید
محراب سجدہ طاعت اہل صفا کہوں
قادر بخش بیدلؔ
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
نامعلوم
رند پی پی کے گلے ملتے ہیں کیا ایک سے ایک
عید کا دن ہے کہ اہل خرابات کی رات
کیفی حیدرآبادی
عید مبارک شاعری
اس سے ملنا تو اسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
دلاور علی آزر
اپنے بیگانے گلے ملتے ہیں سب عید کے دن
اور تو مجھ سے بہت دور ہے اس عید کے دن
نامعلوم
عید مبارک اردو شاعری
اے ہوا تو ہی اسے عید مبارک کہیو
اور کہیو کہ کوئی یاد کیا کرتا ہے
تری پراری
اپنے احساس کی لحد کے قریب
عید گاہوں کو ڈھونڈتا ہوں میں
نامعلوم
گلے آ کے مل لیجیے عید ہے
زمانہ ہوا ایک مدت ہوئی
عرش گیاوی
ابھی اسیر قفس ہیں رہا ہونے تو دو
رہا ہوئے تو ہم عیدیں ہزار کر لیں گے
نامعلوم
جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے
دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے
عبید اعظم اعظمی
حاجیوں کو ہو مبارک حج عید
عاشقوں کا حج اکبر اور ہے
مردان صفی
اب تیرے اس دل نومید میں کیا رکھا ہے
عید آیا کرے اب عید میں کیا رکھا ہے
نامعلوم
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی
غلام بھیک نیرنگ
امیروں کے لئے ہر روز روز عید ہے
غریب خوش ہوں تو جانیں کہ عید آئی ہے
نامعلوم
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
اسلم کولسری
افسوس صد افسوس کہ پہلے کی طرح اب بھی
عید آئی مگر عید منائی نہ گئی
نامعلوم
جس روز کہ پہنچے ہے نئی کوئی مصیبت
اس روز تیرا خوگر غم عید کرے ہے
غلام نقشبند سجادؔ
اشک بن کر بکھر گئی عید
آگے بابا گزر گئی ہے عید
نامعلوم
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
جلیل نظامی
اس مہرباں کی نظر عنایت کا شکریہ
تحفہ دیا عید پہ ہم کو فراق کا
نامعلوم
اس مہرباں نظر کی عنایت کا شکریہ
تحفہ دیا ہے عید پہ ہم کو جدائی کا
نامعلوم
عید کے بعد وہ ملنے کے لیے آئے ہیں
عید کا چاند نظر آنے لگا عید کے بعد
نامعلوم
اس مسرت میں رہے تجھ کو خیال
عید کے دن بھی ہیں کچھ دل پر ملال
نامعلوم
عید اب کے بھی گئی یوں ہی کسی نے نہ کہا
کہ ترے یار کو ہم تجھ سے ملا دیتے ہیں
مصحفی غلام ہمدانی
ان کی طرف گزر ہو تو کہہ دینا اے صبا
کرتا تھا انتظار کوئی سوگوار عید
نامعلوم
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو
مصحفی غلام ہمدانی
چند لمحوں کے لئے عید جو آ جائے
دل کے ویرانے میں کھل جائیں گے کچھ گل بوٹے
نامعلوم
شہر خالی ہے کسے عید مبارک کہیے
چل دیے چھوڑ کے مکہ بھی مدینہ والے
اختر عثمان
عید کا دن جب بھی آئے گا
میری آنکھوں میں اشک لائے گا
نامعلوم
دیکھا ہلال عید تو تم یاد آ گئے
اس محویت میں عید ہماری گزر گئی
نامعلوم
آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے
شاہ مبارک آبرو
عید کا دن بھی یونہی بیت گیا
ہم کبھی جیتے اور کبھی مرتے رہے
نامعلوم
عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس
جس کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس
مصحفی غلام ہمدانی
عید تو اب غم کا اک پیغام ہے اپنے لئے
عید کی خوشیاں مبارک تم کو ہوں جان وفا
نامعلوم
مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے
چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے
محمد اسد اللہ
عید آئی سلگتی ہوئی تنہائیاں لے کر
آج پھر اداسی پر ترس آ رہا ہے
نامعلوم
ہے عید کا دن آج تو لگ جاؤ گلے سے
جاتے ہو کہاں جان مری آ کے مقابل
مصحفی غلام ہمدانی
رنگ و جمال خون شہیداں نہ بھولنا
جس دم تمہارے ہاتھوں پہ مہندی لگائے عید
نامعلوم
عید کا دن تو ہے مگر جعفرؔ
میں اکیلے تو ہنس نہیں سکتا
جعفر ساہنی
رقص کرتا تھا کانٹوں سے گلے مل مل کے
عید صحرا میں منائی تیرے دیوانے نے
نامعلوم
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
بیخود بدایونی
رات آنکھوں میں گزرتی ہے تو دن بے چین سا
کس طرح سے کٹ رہی ہے کیا سناؤں عید پر
نامعلوم
عید کا چاند جو دیکھا تو تمنا لپٹی
ان سے تقریب ملاقات کا رشتہ نکلا
رحمت قرنی
تو آئے تو مجھ کو بھی
عید کا چاند دکھائی دے
ہربنس سنگھ تصور
ابرو کا اشارہ کیا تم نے تو ہوئی عید
اے جان یہی ہے مہ شوال ہمارا
حاتم علی مہر
کسی کی یاد منانے میں عید گزرے گی
سو شہر دل میں بہت دور تک اداسی ہے
اسحاق وردگ
آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید
اے کاش میرے پاس تو آتا بجائے عید
شیخ ظہور الدین حاتم
راس آ جاتیں ہمیں بھی عید کی خوشیاں تمام
کاش تو بھی پاس ہوتا عید کے لمحات میں
نامعلوم
عید کا دن ہے گلے مل لیجے
اختلافات ہٹا کر رکھیے
عبد السلام بنگلوری
عید میں عید ہوئی عیش کا ساماں دیکھا
دیکھ کر چاند جو منہ آپ کا اے جاں دیکھا
شاد عظیم آبادی
لیلۃ القدر ہے ہر شب اسے ہر روز ہے عید
جس نے مے خانہ میں ماہ رمضاں دیکھا ہے
منور خان غافل
وہاں عید کیا وہاں دید کیا
جہاں چاند رات نہ آئی ہو
شارق کیفی
عید کو بھی وہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے نہ ملیں
اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
شعلہؔ علی گڑھ
ہے عید میکدے کو چلو دیکھتا ہے کون
شہد و شکر پہ ٹوٹ پڑے روزہ دار آج
سید یوسف علی خاں ناظم
جہاں نہ اپنے عزیزوں کی دید ہوتی ہے
زمین ہجر پہ بھی کوئی عید ہوتی ہے
عین تابش
عید پر مسرور ہیں دونوں میاں بیوی بہت
اک خریداری سے پہلے اک خریداری کے بعد
سرفراز شاہد
خود تو آیا نہیں اور عید چلی آئی ہے
عید کے روز مجھے یوں نہ ستائے کوئی
نامعلوم
میں اپنے آپ سے رہتا ہوں دور عید کے دن
اک اجنبی سا تکلف نئے لباس میں ہے
ادریس آزاد
چھپ گیا عید کا چاند نکل کر دیر ہوئی پر جانے کیوں
نظریں اب تک ٹکی ہوئی ہیں مسجد کے میناروں پر
شاعر جمالی
کیا لطف عید ہے جو اگر تم سے دور ہوں
گزرے گا روز عید تصور میں آپ کے
نامعلوم
کئی فاقوں میں عید آئی ہے
آج تو ہو تو جان ہم آغوش
تاباں عبد الحی
اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار
کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں
مرزارضا برق ؔ
عشق مژگاں میں ہزاروں نے گلے کٹوائے
عید قرباں میں جو وہ لے کے چھری بیٹھ گیا
شاد لکھنوی
میری تو پور پور میں خوشبو سی بس گئی
اس پر ترا خیال ہے اور چاند رات ہے
وصی شاہ
جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا
بسمل صابری
مجھ کو تو عید میں بھی فراغت کہاں ملی
لڑتی رہی ہے ساس سویرے سے شام تک
ساجد سجنی لکھنوی
وہ صبح عید کا منظر ترے تصور میں
وہ دل میں آ کے ادا تیرے مسکرانے کی
فانی بدایونی
بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد
کارواں عید منا قافلہ سالار آیا
جوش ملیح آبادی
خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں
ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش
میر محمدی بیدار
آپ نے عید مبارک تو کہا ہے لیکن
آپ نے عید منانے کی اجازت نہیں دی
محور سرسوی
رہنا پل پل دھیان میں
ملنا عید کے عید میں
حسن شاہنواز زیدی
وعدۂ وصل دیا عید کی شب ہم کو صنم
اور تم جا کے ہوئے شیر و شکر اور کہیں
مصحفی غلام ہمدانی
مے پی کے عید کیجیے گزرا مہ صیام
تسبیح رکھیے ساغر و مینا اٹھائیے
وزیر علی صبا لکھنؤی
نکلے ہیں گھر سے دیکھنے کو لوگ ماہ عید
اور دیکھتے ہیں ابروئے خم دار کی طرف
پروین ام مشتاق
مہ جبیں عید میں انگشت نما کیوں نہ رہیں
عید کا چاند ہی انگشت نما ہوتا ہے
صفی اورنگ آبادی
چھیڑا ہے ایک نغمہء شیریں بھی کو بہ کو
دل نے ہلال عید کی تائید کے لئے
افروز رضوی
تمہارے عشق ابرو میں ہلال عید کی صورت
ہزاروں انگلیاں اٹھیں جدھر سے ہو کے ہم نکلے
کشن کمار وقار
عید ہے ہم نے بھی جانا کہ نہ ہوتی گر عید
مے فروش آج در مے کدہ کیوں وا کرتا
سید یوسف علی خاں ناظم
کیا خبر ہے ہم سے مہجوروں کی ان کو روز عید
جو گلے مل کر بہم صرف مبارک باد ہیں
منور خان غافل
اس بچے کی عید نہ جانے کیسی ہو گی
جس کی جنت ننگے پاؤں پھرتی ہے
عید قربانی کے نام شاعری
عید قربانی کے نام ۔۔۔۔۔۔
زندگی کو اس طرح آسان کرنا چاہئے
سب سے پیاری چیز کو قربان کرنا چاہئے
ہے خلیل اللہ کی پیاری سی سنّت کا دوام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید قربانی کا نام
اپنے احساسات کوتبدیل کرلو وقت سے
مشکلوں کو آپ بھی تسہیل کرلو وقت سے
پختہ کاری آپ کی کیونکہ ابھی تک بھی ہے خام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید قربانی کا نام
تم عزیزو اقربا بھی رکھو پورا بھرم
ہاں ! غریبوں اور مسکینوں پر بھی نظرِ کرم
اور تم اسی فرض کو کرتے رہو سب ہی میں عام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید قربانی کا نام
بام ہے اِک ٰ ایک ہی سیڑھی ہے اور اِک ہی کمند
کر رکھو تم اتّحاد و امن کا پرچم بلند
ہے اخوّت ہی کی وہ تلوار ٰ جو ہے بے نیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید قربانی کا نام
بھول جاوُ رنجشوں کو ' بھول جاوْ دشمنی
چھوڑ دو تم بغض کو اپناوْ راہِ آتشی
ظلمتوں میں روشنی بانٹو یہاں تم صبح و شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید قربانی کا نام
دن ہے یہ قربانی کا یہ بات سب نے مانی ہے
جا بجا اور کو بکو اِک جذبہِْ ایمانی ہے
سب گلے ملتے ہیں اور ہوتا ہے کتنا اِزدِحام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید قربانی کا نام
منظرانصاری
عید پر شاعری
چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے
دلوں میں یادیں جگانے کو عید آئی ہے
نظر ترستی ہے جس کو کئ زمانوں سے
کہ آیئنہ وہ دکھانے کو عید آئی ہے
خوشی پہ تم کبھی مغرور ہی نہیں ہونا
ہمیں یہ ہی تو بتانے کو عید آئی ہے
لپٹ کے ماں سے وہ ہر چیز کی ضدیں کرنا
وہ ہی تو یادیں دلانے کو عید آئی ہے
کہ پاس اس کے چلو جس نے توڑا ہے یہ دل
یہ آج تم کو منا نے کو عید آئی ہے
نہ یاد کر تو وہ ہی جو تھی چوٹ ماضی کی
کہ زخم دل کے مٹانے کو عید آئی ہے
یہ دل کی بات اے اسلام ان سے کہنی ہے
وہ سارے شکوے بھلانے کو عید آئی ہے
اسلام شکارپوری
شکارپور الہند
قربانی کی عید اردو شاعری
قربانی کی عید
پھر چلی آتی ہے قربانی کی عید
ہاں! خوشی لاتی ہے قربانی کی عید
حوصلہ جینے کا ہے ، پہرے میں کیا
ہم کو سکھلاتی ہے قربانی کی عید
ہاتھ کس نے کس کے خوں سے تر کئے
تم کو دکھلاتی ہے ، قربانی کی عید
کرب سے گر دل کو آزادی ملے
جاں کو راس آتی ہے قربانی کی عید
ظلم سہہ کر بھی نہ لب پر ہو گلہ
عہد دہراتی ہے قربانی کی عید
سنگ کھا کر بھی جو خاموشی رہے
دل کو تڑپاتی ہے ، قربانی کی عید
جو جفا کو بھی عبادت میں گنے
درد سہلاتی ہے ، قربانی کی عید
سر کٹے، آواز بھی کوئی نہ ہو
خامشی لاتی ہے ، قربانی کی عید
درد کو پہنا کے ہمت کا کفن
دفن کرواتی ہے ، قربانی کی عید
جب جفا کی آندھیاں چلنے لگیں
دل کو بہلاتی ہے قربانی کی عید
آگے بڑھ کر روک لو ، ظلم و ستم
حکم فرماتی ہے ، قربانی کی عید
زخم کھا کر بھی نہ ہو مایوس دل
سب کو پڑھاتی ہے قربانی کی عید
عہد طارقؔ تم نے کیا پورا کیا ؟
یاد دلواتی ہے ، قربانی کی عید
ڈاکٹر طارقؔ انور باجوہ- لندن
@@@
عید پر شاعری
مری عید ہے
مری عید ہے یہ مری عید ہے یہ
نہ والد کا سایہ نہ ماں ہی بچی ہے
نہ گھر وہ رہا ہے یہ دستِ تہی ہے
یہ کیسی خوشی ہے یہ کیسی خوشی ہے
محبت کا گلشن وہ میرا وطن تھا
حسیں ہر چمن سے وہ میرا چمن تھا
وہ چھوٹا ہے جب سے مجھے بے کلی ہے
مری عید ہے یہ مری عید ہے یہ
وہ اجداد میرے ہیں سوۓ جہاں پر
میں جانا سکوں عید پر بھی وہاں پر
خدایا یہ کیسی مری بے بسی ہے
مری عید ہے یہ مری عید ہے یہ
وہ بچپن کی یادیں وہ گاؤں کی گلیاں
وہ کھیتوں کا گلشن حسیں زرد کلیا
کہ منظر وہ ہی پھر نظر ڈھونڈ تی ہے
مری عید ہے یہ مری عید ہے یہ
یوں اشکوں کے موتی لٹاتے نہیں ہیں
تماشہ سا خود کو بناتے نہیں ہیں
نہ دل ہی رہا وہ نہ حسرت بچی ہے
مری عید ہے یہ مری عید ہے یہ
یوں اسلام دل کو سنبھالے بہت ہیں
کہ ماضی کے دل میں تو چھالے بہت ہیں
جو دیکھے ہیں منظر غمِ تیرگی ہے
مری عید ہے یہ مری عید ہے یہ
اسلام شکارپوری
شکارپور
انڈیا
@@@
عید مبارک شاعری
بسم رب شہداء والصدیقین
عید الضحی، عید قربان، عید سعید
یہ دن قربانیوں، صدقات، ایثار، تکریم اور اطاعت سے مزین ہے۔
یوں تو امت مسلمہ کے ٹھیکیداروں نے
امت سے عید کی رونق اور کیفیت ہی چھین لی ہے۔
ایسی عید جس میں غزہ کے معصوم نونہال
کھانا کجاء پانی اور طبی امداد کو ترستے مر جائیں
ہم کھربوں ڈالر کے جانور قربان کر دیں
جبکہ امت کے قائدین جانوروں کے ساتھ انسان بھی قربان کر دیں
وہاں کیسی عید اور کونسی عید اور کس کی عید؟
مگر حکم خداوندی اور فریضہ واجب کی تعمیل و تعظیم میں
عید مبارک
خداوند کریم ہم سب کو حقیقی عید عطاء فرمائے
وارث دین و دنیا کا ظہور جلد فرمائے
اس عید پر یہی عرضداشت ہے کہ کم از کم
قربانی کی خوشیاں گرد و نواح میں تقسیم کیجئے
والسلام و بار دیگر عید مبارک
0 تبصرے