Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو افسانہ : کچھ سست قدم رستے

اردو افسانہ : کچھ سست قدم رستے

کچھ سست قدم رستے
مسرورتمنا
پچاس روپیے کا گوشت دینا
اچھا گوشت والے نے گھور کر دیکھا پہلے کا باقی تو دیا نہیں
بس آج بھر ادھار دے دو گلزار لڑکھڑاتے ہوے گوشت کی طرف للچاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اسے پتہ تھا گھر میں باسی روٹی یا ابلے چاول کے کچھ بھی نہ ہوگا
اور ادھر جنت بھی پرانے پھٹے کپڑوں میں لپٹی اپنے پھولے وجود کو دیکھ رہی تھی
ایک ہفتے سے پیٹ بھر کھانا نہیں ملا پھر بھی وہ مری نہیں نا ہی اسکے پیٹ کا بچہ وہ تو مزے سے اسے لات مار رہا تھا
اس دنیانے اور گلزار نے کیا کم مارا تھا
مگر اپنے بچے سے اسے پیار تھا ممتا تھی جو لات مارنے پر کھل اٹھتی تھی
ماں نے تو جنت نام اسلیے رکھا تھا کے وہ دنیا میں ہی جنت کے مزے لے
مگر پھوٹی قسمت نہ چاہ کر بھی گلزار سے بیاہ دیا
گلزار اکیلا تھا چلو سسرال میں 
سب اسی کا ہوگا مگر گلزار کی بری عادت نے اسے برباد کردیا جنت کی ماں مرگئ
اور جنت اپنا پھولا پیٹ لے کر دوسروں کا کام کرتی
ماں کاسب کچھ گلزار نے اڑادیا
رات وہ درد سے کراہ رہی تھی
تبھی گلزار پاس ایا ماں کی اخری نشانی کان کی بالیاں نوچ لے گیا
جنت جو اپنی بے گناہی کے باوجود جیتے جی جہنم میں جل رہی تھی
یا خدا میں اپنے لیے نہیں اس کوکھ میں پلتے وجود کے لیے
کچھ کھانا چاھتی.. 
اور وہ بےھوش ہوگئ
پڑوس کی ساتھی رانی نے اسکی حالت دیکھی
ہاے ہاے ربا تو یہاں بیٹھا شراب پی رہا ہے تیری بیوی کی حالت خراب ہے چل اسپتال لے چل
میرے پاس پیسہ نئ گاڑی کا کرایہ نئ
ہاں رے نکما کام چور بیوی کی کمائ کھانے وال 
پڑا رہ مر 
سیما نسرین دادی چاچا سب او 
جنت کو لے چلو
اب وہ اسپتال میں تھی....
... .......
,خدا خدا کر کے اس نےآنکھیں کھولیں
اسکی کمزور نگاہیں اپنے بچے اور گلزار کو دھونڈ رہیں تھی
اسکی کوکھ اجڑ چکی تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر روی اتنے لات کھاکر خوش ہوتی تھی بچہ مگر تو
مجھے چھوڑ گیا
اب میں ذندہ رہ کر کیا کرونگی
میرے جینے کا مقصد کیا ہے
خلق کی خدمت ڈاکٹر شاھین نے اسے ہمت دی
کچھ دن میرے گھرآرام کرو پھر تم اپنے کام پر لگ جانا ڈاکٹر دانش سے میری بات ہوچکی ہے
رانی نے بتایا جس دن وہ اسپتال آی تھی گلزار کہیں بھاگ 
چکاتھا
وہ اسپتال میں لوگوں کی خدمت کر کے وقت گذارتی رہی
ابھی وہ ایک مریض کے پاس تھی تبھی کسی نے اسے پکارا
سسٹر بیڈ نمبر چھ کا مریض بہت بری حالت میں ہے 
ڈاکٹر شاھین نے آپ کو بلایا ہے
جنت نے اس مریض کو دیکھا جو خون کی الٹیاں کرتے کرتے تھک چکا تھا
جنت پر اسکی نگاہ رکی تو وہ چونکا جنت. ارے نہیں وہ تو برسوں پہلے مرچکی بھوک سے
میرے ظلم سے
پھر وہ زور سے هنستا رہا
اور اخری الٹی کرکے ھمیشہ ھمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا
جنت نے اپنے پرس سے روپیے نکالے
سسٹر اسکے کفن کا انتظام
اور اسکی آنکھوں میں اے انسو کہیں اندر جا کر گم ہوگئے

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ