Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو ناول کا آغاز و ارتقاء | Urdu Novel Ka Aaghaz O Irteqa

اردو ناول کا آغاز و ارتقاء | Urdu Novel Ka Aaghaz O Irteqa

افسانوی نثر میں صنف ناول اہم ترین صنف ہے۔ ناول میں زندگی کی وسعت و ہمہ گیریت کو بھر پور طور پر پیش کرنے کی جو صلاحیت ہے وہ دیگر صنف نثر کو میسر نہیں۔ اردو میں ناول نگاری کا وجود انگریزی ادب کے توسط سے عمل میں آیا۔ مولوی نذیر احمد نے 1869 میں مراۃ العروس کی تخلیق کر کے اردو ناول نگاری کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بنات النعش، توبتہ النصوح،ابن الوقت، ایامی،فسانۂ مبتلا اور رویائے صادقہ کے نام سے کل سات ناول تحریر گئے۔ان میں تو بتہ النصوح، نذیر احمد کا شاہکار ثابت ہوا۔ نذیر احمد کے تمام ناولوں کا مقصد متوسط مسلم معاشرے کی اصلاح ہے۔ اس لحاظ سے نذیر احمد کے ناولوں کی دنیا محدود ہے۔مولویانہ ذہنیت کے سبب ان کے ناولوں میں پند و نصیحت کا غلبہ ہے۔ جو ناول میں قاری کی دنیپی کو کم کر دیتے ہیں۔فنی اعتبار سے نذیر احمد کے ناول ذرا کمزور ہیں۔

اردو ناول نگاری کا آغاز و ارتقاء

اردو ناول نگاری کے دوسرے دور میں تین اہم ناول نگار سامنے آتے ہیں۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار، عبدالعلیم شرر اور راشدالخیری۔ ان ناول نگاروں نے نذیر احمد کی روایت کو آگے بڑھایا۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناولوں کی دنیا لکھنوی تہذیب سے آراستہ ہے۔ فسانۂ آزاد سرشار کا شاہکار ہے۔لکھنو کے جاگیردارانہ ماحول کی تصویر کشی،سرشار کا ظریفانہ انداز بیان، آزاد اور خوجی کے دلچسپ کردار، چست اور بیل مکالمے اس کی مقبولیت کا راز ہیں۔

اردو ناول نگاری میں تاریخی ناول

عبدالعلیم شرر نے اردو ناول نگاری میں تاریخی ناول لکھنے کی بنیاد ڈالی۔انھوں نے اپنے ناولوں کے ے وسیلے سے تاریخ اسلام کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔فردوس بر میں شر کا شاہکار ناول ہے۔

ناول نگاری مسلم خواتین

راشدالخیری نے مسلم خواتین کو اپنی ناول نگاری کا مرکز بنایا ہے۔ان کے ناولوں میں مسلم معاشرے میں عورتوں کی ابتر حالت کی دردناک تصویر پیش کی گئی ہے۔ راشدالخیری خواتین کی نجات کا واحد ذرای تعلیم کو بتاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے ناولوں میں تعلیم نسواں پر بھی خاطر خواہ زورماتا ہے۔ عروس کر بلا ان کا اہم ناول ہے۔

اردو ناول نگاری کا اہم دور

اردو ناول نگاری کا اہم دور تب شروع ہوتا ہے جب مرزا ہادی رسوا ناول نگاری کا دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ رسوا کے ناولوں میں لکھنؤ کی زندگی کی حقیقی عکاسی ملتی ہے۔ رسوا پہلے ناول نگار ہیں جنھوں نے اپنے ناولوں میں صنف ناول کے تمام فنی لوازمات کو بخوبی برتا ہے۔ ذات شریف، شریف زادہ،اختری بیگم اور امراؤ جان ادارسوا کے ناول ہیں۔ان میں امراؤ جان ادا' کو رسوا کا شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔

اردو ناول نگاری کا اگلا دور پریم چند

اردو ناول نگاری کا اگلا دور پریم چند سے عبارت ہے۔ پریم چند نے ناول نگاری کو ایک نئی ساجی حقیقت سے آشنا کیا۔ انھوں نے ناول کو عام انسانوں کے مسائل کا تر جمان بنادیا۔ پریم چند نے پہلی مرتبہ اردو ناول کو دیہاتی زندگی اور ادنی طبقے کی زندگی سے قریب لانے کی کامیاب کوشش کی۔ اسرار معابد، گوشت عافیت، نرملا، میدان عمل، وغیروان کے اہم ناول میں۔ گئودان کا شمار پریم چند کے شاہکار ناول میں ہوتا ہے۔

اردو ناول نگاری کا دور ترقی پسندی

اردو ناول نگاری کا اگلا دور ترقی پسندی کا دور ہے۔ اس دور میں اردو ناول نگاری نئے موضوعات اور نئے اسلوب سے آشنا ہوئی۔ پریم چند نے جس حقیقت نگاری کی بنیاد رکھی تھی بترقی پسند ناول نگاروں نےنے اسے عروج کمال کو پہنچا دیا۔ محنت کش طبقے کا استحصال، ساجی ظلم و نا انصافی، زمینداری کی لعنت وغیرہ ترقی پسند ناول نگاروں کے محبوب موضوع قرار پائے۔ اس دور میں لکھے گئے ناولوں میں کرشن چندر کا کلست را جندرسنگھ بیدی کا ایک چادر میلی سی عصمت چغتائی کا ٹیڑھی لکیر قرۃ العین حیدر کا آگ کا دریا وغیرہ اہم

ما بعد آزادی اردو ناول نگاری

ناول ہیں۔ ما بعد آزادی اردو ناول نگاری کا اگلا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں عبداللہ حسین، انتظار حسین، جمیلہ ہاشمی، خدیجہ مستور، جیلانی بانو اور انورسجاد جیسے اہم ناول نگار منظر عام پر نمودار ہوتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں تقسیم ہند، فرقہ وارانہ فسادات،ٹوٹے بکھرے رشتے اور ڈالی تلاش جیسے موضوعات بکھرے پڑے

ہیں۔

اردو ناول نگاری کا جدید دور

1980 کے بعد اردو ناول نگاری کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔ جدید ناول نگاروں میں جوگندر پال، پیغام آفاقی،حسین الحق مشرف عالم ذوقی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ ان ناول نگاروں نے جدید دور کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اس طرح اردو ناول نگاری نے اپنی ابتدا سے موجودہ عہد تک اپنے ارتقا کے سفر کو بخوبی پورا کیا ہے۔ ہر عہد میں چند ایسے ناول نگار سامنے آۓ جنھوں نے ناول کی قائم شدہ روایت کو محض بڑھایا ہے بلکہ اس میں اضافے بھی کئے ہیں۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ