Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو ادب کا شہابِ ثاقب

اردو ادب کا شہابِ ثاقب

ڈاکٹر مقصود جعفری 

شاعری بنیادی طور پر دل کا معاملہ ہے۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ دل مرکزِ وجدان ہے۔ وجدان دولتِ الہام ہے۔ رانا افتخار احمد ثاقب صاحب ایک صاحبِ دل انسان ہیں اور صاحبِ دل صاحبِ درد ہوتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے

ثاقب صاحب کا پہلا شعری مجموعہ بعنوان “ رقصِ دل” شائع ہوا تھا۔ یہ رقصِ دل دراصل رومی کا رقصِ درویش ہے جو ایک جہانِ معنی ہے۔ آپ کی دوسری شاعری کی کتاب “ ستاروں سے پرے” کے عنوان سے چھپی۔
عشق کا امتحان بڑا جان لیوا اور روح فرسا ہوتا ہے ، چاہے وہ عشقِ مجازی ہو یا عشقِ حقیقی ۔ دل ویران ہو جاتا ہے۔مرزاغالب نے اِس ویرانی کا رونا یوں رویا۔ کہتے ہیں۔
لیکن ثاقب صاحب نے غمِ جاناں کو غمِ دوراں بنا دیا۔ کہتے ہیں۔
یہ قحطِ بہاراں وہ خزاں ہے جو نہ صرف دلِ ویراں پر چھائی ہے بلکہ گلشنِ زندگی کو بھی اجاڑ دیتی ہے۔بقولِ جگر مراد آبادی
ثاقب صاحب کی شاعری میں شدّتِ کرب اور حدتِّ درد ہے۔ زبان و بیان میں سلاست و بلاغت ہے۔ شیرینی اور روانی ہے جو جُوۓ جوانی اور طبع کی جولانی ہے۔ 
 شاعری رمزِ شعور اور بادۂ سرور ہے۔ ثاقب صاحب کی شاعری روایت اور جدّت کا حسین امتزاج ہے۔اِن کی نگاہِ تیز بیں معاشرے پر ہے۔کہتے ہیں

شاعر کی آنکھ چشمِ نرگس نہیں ہوتی جو نہ بصارت رکھتی ہے اور نہ بصیرت ۔ چشمِ بینا بصارت و بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ثاقب صاحب دیدۂ بینا رکھتے ہیں اور اِن کی شاعری خواب و خیال کی نہیں بلکہ زندگی کے حقائق کی شاعری ہے۔
اِن کی شاعری کی تیسری کتاب “ روشنی کا بدن” زیرِ طبع ہے۔ “ اے روشنئ طبع تو بر من بلا شُدی” والا معاملہ ہے۔ کہتے ہیں۔
اِن کے دل کو روشن روشنی کا بدن ہی رکھ سکتا ہے۔ روشنی کا بدن ایک استعارہ ہے۔ جب یہ روشنئ طبع آۓ گی تو جہالت، ضلالت، نکبت، نخوت، ذلالت ، کدورت ، عداوت اور ہلاکت پر مبنی انسانی معاشرہ محبّت ، شرافت، عزّت اور عظمت کا رُوپ دھار لے گا اور یہی ثاقب صاحب کی شاعری کا مُدّعاو مقصد ہے-
۲۹ مارچ ۲۰۲۲ 
نیویارک

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ