Ticker

6/recent/ticker-posts

تیسری دنیا نظم | Teesri Duniya

تیسری دنیا 


نہ جانے کتنے سالوں سے 
نہ جا نے کتنی صدیوں سے 
یہاں کچھ بھی نہیں بدلا 
یہاں پر زندگی کیا ہے ۔۔۔اذیت ہی اذیت ہے 
خموشی چیختی ہے اور خوشیاں بین کرتی ہیں 
یہاں کی کھیتیوں سے بارشیں ناراض ہیں
فصلوں پہ میٹھا پھل نہیں آتا
یہاں کے ڈیم خالی ہیں 
ہماری صبح صادق بھی کوئی شام غریباں ہے 
یہاں سورج اجالا ڈھونڈتا ہے
 رات ڈرتی ہے اندھیرے سے 
عجب اِک حسرت تعمیر ہم میں گنگناتی ہے
ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں 
تو پھر بھی ان کھلی ہی ہیں
نظر کے سامنے منظر ہیں جو رنگوں سے خالی ہیں 
یہاں ہر روز ہی اِک مسئلہ ہے ، الجھنیں ہی الجھنیں ہیں 
وقت کی بے ربط گردش ہے
خلش یہ ہے کہ سیدھا چلتے رہنے سے کبھی منزل نہیں ملتی
یہاں دیوار در دیوار ہے رستہ نہیں ملتا
یہاں رستہ بنانے کی تگ و دو کرنے والوں کو 
سیاسی بھینٹ چڑھنا ہے 
کوئی امید کی شمعیں جلاتا ہے
 تو اس دھرتی کے کتے بھونکتے ہیں کاٹ کھانے کو 
یہاں پاکیزگی اوڑھے فرشتے بھی اُتر آئیں 
تو وہ مدِ مقابل سے اُلجھ جائیں
یہاں پر موت بھی چاہیں تو وہ قسطوں میں ملتی ہے 
ہماری سرحدوں پہ گھن گرج بارود گولوں کی 
سنہری چاندنی راتیں ہوں یا سورج کی حدت ہو 
ہماری تیسری دنیا کے موسم ایک جیسے ہیں
یہاں اعلیٰ دماغوں کی پنیری پھوٹتی ہے 
جو ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر اپنے ہی ماضی کو یکسر بھول جاتی ہے
یہاں پر عالمی سازش کے اتنے جال ہیںجن سے 
  نکل جانا کوئی آسان تھوڑی ہے 
ہماری اکثریت صرف لالی پاپ پر خوش ہے 
انہی میں ایک میں بھی ہوں 
انہی میں ایک تم بھی ہو
شاعر : زعیم رشید

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ