Ticker

6/recent/ticker-posts

کپڑے سکھانے کی مشین

کپڑے سکھانے کی مشین

آج جاوید صاحب اپنے فرزندِ خُرد اور اکلوتی بیگم صاحبہ کے ساتھ ہمارے غریب خانہ آئے۔ انکی اہلیہ زنانخانہ میں چلی گئیں، اور وہ دیوان خانہ میں تشریف لے آئے۔ ہمارا دیوان خانہ بہت کشادہ ہے۔ جاوید صاحب کا چھوٹ بیٹا ڈبّو کچھ دیر تو خاموش بیٹھا رہا پھر دیوان خانے کا مکمل مطالعہ کرنے لگا۔ اچانک دیوان خانہ کے کونے کی طرف اشارہ کر کے بولا، ابو کپڑے سکھانے کی مشین یہاں بھی ہے۔ جاوید صاحب جھینپ سے گے اور بولے ، خاموش ڈبّو ، جو منہ میں اے بولے چلے جاتے ہو۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ڈبّو خاموش ہو گیا اور بڑی بڑی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتا ہوا سر نیچے کر لیا، جیسے کسی سچائی کے مجرم کی تختہِ دار پر کیفیت ہوتی ہے۔ میں نے کہا جاوید صاحب بچے معصوم ہوتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے۔ حقیقت میں یہ مشین اسی کام کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ حالانکہ اس مشین کو کچھ اور ارمان لئےخریدا گیا، پھر سہانےخواب سجائے گھر میں لایا گیا تھا۔ میں جس دوست کے گھر بھی جاتا ہوں، وہاں اس مشین کا صرف یہی استعمال ہو رہا ہے، اس پر کپڑے سکھانا۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آدمی کو اپنی رفیق ِحیات و شریک حیات کی بڑی فکر ہوتی ہے اور وہ انکو وہی شادی والی عمر میں دیکھنا چاہتا ہے۔

عمرِ رفتہ نے رلایا رودئے
اُنکو دیکھا دل بھر آیا رودئے۔

میاں بول بول کر تھک جاتا ہےکہ خدا کے لئے وزن کم کرنے کے لیے کچھ تدبیر کرو، لیکن وقت گزرنے اور بچے ذرا بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ محترمہ اس سیاسی لیڑر کی طرح ہو جاتی ہیں جو اب الکشن جیت چکا ہے۔ شوہر واٹس ایپ پر اچھے اچھے ریاضت اور ورزش کے فائدے والی ویڈیو بھیجتا رہتا ہے اور خواتین کے جِم کے اشتہار بھی۔ لیکن مجال ہے کبھی اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ الٹا بہت سے الزامات سرتاج پر ہی لگا دئے جاتے ہیں ۔ کہ مرد ہوتا ہی ہے بے وفا، سارے گھر کو سنبھالنے کے بعد کیسے وقت ملے گا، تمہارے بچے کچھ کرنے دیں تب نا، ہماری ساس کو توصرف نوکرانی کی ضرورت تھی، بہو رانی لے کر آئیں ۔ دیکھو ہماری نانی کو کیا مالا اطاعت، خدمت اور شرافت کی بدلے میں سوتن ملی ۔ مرد کی فطرت میں ہی جفا ہے، وغیر وغیرہ۔

نانی اماں کا نام سن کر ڈبّو پھر بولا، ہاں ہماری دادی اماں بھی میری ممی کو دیکھ کر آہستا سے کہتی ہیں "بہو چلے تو گھر ہلے"۔ جاوید صاحب نے ڈبّو کی طرف گھور کے دیکھا، تو وہ چُپ ہو گیا ۔

ڈبّو انکی پہلی بیگم کا آخری بچہ تھا۔ ویسے تو آج کل سب کی ایک ہی بیوی ہوتی ہے لیکن "پہلی" کہنے سے دل کو کچھ سکون ہوتا ہے اور شریعت میں جو چار کی اجازت جو ہے اس کا انکار بھی نہیں ہوتا۔

جاوید صاحب نے تعجب سے پوچھا ، پھر اس کا کیا حل ہے بھائی۔ میں نے کچھ سنجیدہ ہو کر ڈبّو سے کہا، جاو بیٹا چاچی سے مل آو۔ ڈبو اندر چلا گیا تو میں نے ادھر ادھر دیکھ کر جاوید صاحب کو قریب بلایا اور بہت ہ رازدارانہ اور حکیمانہ انداز میں بولا "دھمکی"۔ جاوید صاحب استعجاب سے بولے دھمکی، کیسی دھمکی۔ میں نے کہا بس اب یہی آخری راستہ ہے ۔ وہ کیا ؟ میں نے کہا "طلاقِ رجعی" کی صرف دھمکی۔ جاوید صاحب مسکرا کر پیچھے ہٹے اور بولے، رہنے دو بھائی، یہ سب بیکار ہے ۔ میں نے ایک دن بہت ہنگامہ کیا اور بولا کے طلاق دے دونگا، اگر اس مشین کو استعمال نہیں کیا تو۔ لیکن محترمہ کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا، انہوں نے کہا تمہاری ہمت کیسے ہوئی، تم نے اس طرح سوچا کیسے۔ اچھا دال میں ضرور کچھ کالا ہے ۔ انہوں نے امی اور بہنوں کی ساری پرانی فائلیں ایک ایک کر کے گھول ڈالیں۔ میں بھی ڈٹا رہا لیکن کب تک، آخر حملہ میں بیگم نے نیوکلیائی ہتیار کا استعمال کیا اور ہم بے دست و پا ہو گئے۔ میں نے کہا، وہ کیا ؟ اجی وہی رونا دھونا اور قسمت کو رونا بھر بچوں کو دھونا اور دُھنکنا۔ رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی اور حضرتِ خمار کی وہ غزل "مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آگیا” ۔۔۔۔۔۔کا شعر یاد آنے لگا

کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آگیا۔۔۔۔

کاش علامہ اقبال اسرارِ خودی اور رموز بیخودی کے بجائے اسرار زوجیت اور رموز بیگمات لکھ دیتے تو ہمارا بھلا ہو جاتا

اور اشعار کچھ اس طرح ہوتے:

جرأت آموز مری تاب ِسخن ہے مجھ کو
شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھ کو

جاوید صاحب آگے بولے ، دوسرے دن میڈم کا موڈ درست کرنے بائیک نکالا اور مارکٹ لے گیا ۔ راستے میں کوئی گانا چل رہا تھا ، سن کر بیگم نے کہا ، اجی آپکو یاد ہے ، یہ گانا اپنی شادی کے وقت نیا نیا آیا تھا۔کتنے اچھے بول ہیں اسکے ،

جانِ من، جانِ من، جانِ من۔۔۔۔۔

اجی "جانِ من" کا کیا مطلب ہے؟ بیگم نے سوال کیا۔ میں پہلے ہی رات کے واقعہ سے تپا ہوا تھا ، بولا، پہلے زمانے میں مَن کا وزن چالیس سیر کے برابر ہوتا تھا۔ اس لئے شروع میں جان من بولتے اور بعد میں صرف اِتنے مَن اُتنے بولتے۔

بیگم اس فلسفہ کو سمجھ نہ پائیں، بولیں اسکا کیا مطلب ہے جی؟ میں نے کہا، مطلب گانا گا کے سمجھا تا ہوں ،

جانِ من، جانِ من، جانِ من
آپ کا ہو گیا اسّی مَن وزن

بیگم سمجھ کر ایک دم چلتی بائیک پر مجھ سے دور کھسکنے اور ہٹنے کی کوشش کرنے لگیں۔ اور پیچھے سے میری پھسلی میں چمٹی کا احساس بھی ہوا۔ میں اس وقتی فتح پر مسکرانے لگا لیکن بائیک توازن کھونے لگی تھی۔ میں نے کسی طرح اس کو سنبھال لیا۔ کیونکہ ہماری کہانی بہت موٹی-ویٹنگ تھی۔ یہ سن کر میں اور جاوید صاحب قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔

ڈبّو دیوانخانہ میں آیا اور بولا امی چلنے کے لئے کہ رہی ہیں ۔ جاوید صاحب جھٹ کھڑے ہوگئے اور چلنے کی اجازت مانگنے لگے۔ میں نے اس ادھورے مِشن کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا حسرت بھرا چہرہ لئے سوال کیا، پھر کوئی دوسرا حل ہے کیا جاوید بھائی؟ وہ مسکرا کر بولے، فکرمت کیجئے جنت میں سارے ارمان پورے ہوجاینگے ۔ زنانخانہ کا پردا تھوڑا ہلا تو ہم نے موضوع بدل ڈالا، کیونکہ اندازہ ہو چلا تھا کے جاوید صاحب کی بے غم (بیگم) آنے والی ہیں۔

میں نے کہا، جاوید صاحب کوئی ٹکنیشین ہو توبتائیں، ہماری ٹریڈ مل جب سے میں نے استعمال شروع کیا ہے آوازیں دے رہی ہے ، بہت دنوں سے رکھی ہوئی تھی۔ جاوید صاحب مسکرئے اور بولے مطلب" کپڑے سکھانے کی مشین " اور جھٹ باہر نکل گئے۔

ستم رسیدہ،
وسیم قریشی

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ