Ticker

6/recent/ticker-posts

سوغات : اردو افسانہ | Saughat Urdu Story

سوغات : اردو افسانہ | Saughat Urdu Story

سوغات
آج ان کی شادی کی پنتیسویں سالگرہ ہے ۔لیکن ان‌کی اس سالگرہ پر ان کے آس پاس خوشیاں منانے والا یا مبارکبادی دینے والا کوئی نہیں ۔اس کی وجہ قدرت کی نامہربانی ہے ۔پنتیس سال کے بعد بھی ان کے گھر میں کوئی اپنا کہنے والا نہیں ہے ۔حالانکہ دونوں نے ایک بیٹی کو گود لیا تھا اور بڑے شاز و ناز سے پال پوس کر بڑا کیا۔اچھے سکول میں پڑھایا لکھایا ۔اپنی ساری خوشیاں اس پر نچھاور کیں ۔اور شادی کی عمر ہوتے ہی اس کے لئے اپنے رشتے سے ہی ایک نوجوان لڑکے کو گھر جمائی بناکر لائے ۔لیکن‌ قدرت جب آزمانے پر آتی ہے تو خوشیاں غموں میں بدل جاتی ہیں ۔امیدیں مایوسیوں کا روپ اختیار کر لیتی ہیں ۔اپنے پرائے ہوجاتے ہیں ۔زمین تنگ ہوجاتی ہے اور آسمان آگ بگولہ ۔بیٹی کی شادی کے کچھ مہینوں کے بعد ہی گھر جمائی نے دونوں پر رعب جمانا شروع کیا ۔پڑوسیوں اور رشتے داروں کو گھر بلانے پر اعتراض کیا۔وہ ملنسار تھے اس لئے ان کے اخلاق کو دیکھ کر رشتےدار اور پڑوسی ان سے ملنے آتے تھے ۔یہ ادا نہ جمائی کو پسند تھی اور نہ ہی گود لی گئی بیٹی کو ۔اس لئے حالات بد سے بدتر ہونے لگے ۔شوہر کی غیر موجودگی میں سکینہ کو خوب ڈانٹ پڑتی تھی ۔لیکن‌وہ شوہر سے کبھی اس کا زکر نہیں کرتی تھی ۔ایک دن  بشیر نے سکینہ کو بیٹی اور جمائی کے ہاتھوں ڈانٹ کھاتے ہوئے سن لیا ۔اس نے آپا کھویا اور دونوں سے کہا ۔۔اگر آپ کو ہمارے ساتھ رہنا پسند نہیں ہے ۔تو آپ لوگ الگ ہوجاؤ اور مکان خالی کرو ۔

مکان آپکا نہیں میرا ہے ۔۔۔یہ میں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیا ہے ۔اس لئے آپ اپنے لئے مکان ڈھونڈو ۔جمائی کا یہ جواب اور بیٹی کی خاموشی نے سکینہ اور بشیر کو بےبس کردیا ۔معاملہ گاؤں کے پنجوں تک پہنچ گیا اور فیصلہ ہوا کہ سکینہ اور بشیر کے لئے الگ مکان تعمیر کیا جائے ۔یوں ایک جھونپڑی نما مکان تعمیر ہوا جس میں ایک چھوٹا سا کچن، بیت الخلا اور ایک سونے کا کمرہ تھا ۔

دونوں میاں بیوی نے نئے سرے سے زندگی شروع کی ۔بشیر کے سارے بال اور داڈھی سپید ہوگئے تھے ۔اپنی اولاد نہ ہونے کے غم نے دونوں کا‌ حلیہ عمر وسطیٰ میں ہی بوڑھوں جیسا بنایا تھا۔۔سکینہ بیٹی کا نام زبان پر لیتے ہی رونے لگتی تھی اور کہتی تھی ۔۔۔میری ممتا میں کیا کمی رہ گئی جو میری بیٹی نے مجھے ٹھوکر ماری ۔۔کاش اپنی کوک سے ایک بچے کو جنم‌ دیا ہوتا۔۔بشیر سمجھانے کی کوشش کرتا کہ ایسا مت کہو ۔۔ مقدر میں جو لکھا ہے وہی ہوتا ہے ۔۔ضرورت اس  بات کی ہے کہ ہم اپنا دامنِ مراد اخدا کی رحمتوں سے مالا مال کرنے کی فکر کریں، اپنی غفلتوں سے باز آئیں، اپنے رب کو منانے کی کوشش کریں اور ایمان کی پختگی کے ساتھ اپنے دلوں میں خداکا خوف پیدا کریں  اسی تدبیر سے ہم یقینی طور پر خدا کی رحمت اپنی طرف متوجہ کراسکتے ہیں اور اپنی بگڑی سنوار سکتے ہیں۔

چلو خدا کی بارگاہ میں زکریا کی طرح اپنی عرضی داخل کرتے ہیں ۔۔۔اور خوشی خوشی زندگی گزارتے ہیں ۔
دونوں نے ماضی کو بھول کر نئی شروعات کیں ۔

اب وہ دو ہی ہیں لیکن‌خوش ہیں ۔کوئی جھنجھٹ نہیں اور نہ ہی کوئی جھگڑا۔برسات کا موسم ہے ۔آسمان‌بھی ابر آلودہ ہے۔ ۔سکینہ نے چالیسویں سالگرہ پر نہا دھو کر نئے کپڑے پہننے کا فیصلہ کیا ۔اسی اثنا میں بادل گرجنے لگے اور برسات شروع ہوئی ۔نہانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں بھیگے بالوں کو تولیہ سے سکھانے لگی ۔ادھر اس کا شوہر جلدی جلدی کمرے میں داخل ہوا۔ بیوی کو نئے کپڑوں اور کھلے بالوں میں دیکھ کر اس کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔دھڑکن میں بھی اچھال آیا ۔آنکھیں چمکنے لگیں اور جسم میں عجیب گدگدی ہونے لگی ۔اس نے سکینہ کو باہوں میں لے لیا اور کہنے لگا ۔۔آج تو کسی حور سے کم نہیں لگ رہی ہے ۔تیرے حسن کے جلوں نے میرے جزبات کو ابال دیا ۔

سکینہ بیچاری شرم سے پسینہ پسینہ ہوگئی ۔ وہ بشیر کے مساس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔چھوڈو مجھے ۔۔کوئی آگیا تو کیا کہے گا ۔تجھے شرم نہیں آتی ۔۔۔
یہاں کون آئے گا ۔بیٹی نے گھر سےنکالا ۔جمائی کے ڈر سے لوگوں نے ملنا بند کیا ۔اور شرم کس بات کی ۔‌تو میری کھیتی ہے اور میں تیرا لباس۔ اس کو کہتے ہیں پرایا گھر تھوک کا ڈر اپنا گھرہگ بھر۔ ۔آج تو غضب کے جلوے بکھیر رہی ہے۔۔۔بشیر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔

بیوی دھکے مارتے ہوئے ۔۔۔ابھی تم بوڑھے ہوگئے ہو ۔۔اب آسمان بننے کی کوشش‌ مت کرو ۔۔۔
برسات ‌زور و شور سے ہورہی تھی ۔ایسا‌ لگ رہا تھا جیسے ساون شباب پر تھا اور  جذبات کی ناو مجدار میں ۔ دونوں کے من ہچکولے کھانے لگے۔ ایسا کئی سالوں کے بعد ہورہا تھا ۔جیسے ریگستان میں برسوں کے بعد بارش ہو رہی تھی اور پیاسی زمین ہر بوند کو جذب کر رہی تھی ۔ جو بھی ہورہا تھا دونوں کی مرضی سے ہورہا تھا ۔ ۔آسمان سے بادل گرج رہے تھے اور بجلی چمک رہی تھی ۔پتہ ہی نہیں چلا کب رات گزری اور بات گزری ۔تین مہینوں کے بعد سکینہ نے بشیر سے کہا ۔۔سنو ۔۔میری پیٹ میں کچھ گڑبڑ ہے ۔۔۔پتہ نہیں کیا عجیب کیفیت ہے ۔۔
بشیر نے مخول کرتے ہوئے کہا۔۔۔بچہ ہوگا
سکینہ نے شرماتے ہوئے کہا ۔۔۔جوانی میں نہیں ہوا اب بوڑھاپے میں کیسے ہوگا  
بشیر نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ایسا کمزوری کی وجہ سے ہوتاہے یا قبض کی وجہ سے ۔۔
لیکن‌قبض نہیں ہے ۔۔بیوی نے نکارتے ہوئے کہا
جب شکایت بڑھتی گئی تو ایک دن دونوں ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ڈاکٹر نے دوایاں لکھیں اور کہا ۔۔۔یہ اس عمر کا تقاضا ہے ۔۔گھبراو مت سب کچھ ٹھیک ہوگا ۔میاں بیوی واپس آگئے ۔یوں ایک دو مہینے اور گزر گئے ۔پیٹ کی عجیب و غریب کیفیت میں اضافہ ہوتا رہا ۔
ایک دن سکینہ نے پھر شوہر سے کہا ۔۔۔دیکھو میرا پیٹ دن بہ دن باہر نکل رہا ہے ۔ایسا لگ رہاہے جیسے کوئی اندر سے لات مار رہا ہو 
بشیر نے بھی ہاں میں ‌ہاں ملاکر کہا ۔۔۔مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کچھ تو گڑبڑ ہے ۔
دونوں پھر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ڈاکٹر نے یو ایس جی کرنے کا مشورہ دیا ۔یو ایس جی کرائی گئی تو عجب الوقوع بات سامنے آگئی ۔
ڈاکٹر نے بشیر سے پوچھا۔۔چاچا آپ کی عمر کتنی ہے ؟
بشیر نے حلیمانہ انداز میں کہا۔۔۔جناب آپ کو اندازہ ہونا چاہیے ۔۔میں آپ کے باپ کی عمرکا ہوں 
ڈاکٹر ہنستے ہوئے ۔۔مجھے نہیں لگتا ۔۔ ۔ آپ ابھی بھی توانا ہیں ۔اچھا کسی بڑے بیٹے یا بیٹی کو بلاؤ ۔۔
بشیر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ڈاکٹر صاحب ہمارا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ہم دو ہی ہیں ۔۔کیوں خیریت ہے نا ۔
ڈاکٹر صاحب نے کھڑے ہوکر بشیر کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔چاچا ۔میرے اباجان کہتے تھے۔۔خدا کی رحمت سے کبھی ناامید مت ہوجاؤ۔‘‘
 خدا کی رحمت بہانہ ڈھونڈتی ہے، اور بسا اوقات بندوں کی بہت چھوٹی نیکیاں بلکہ دل سے احساسِ ندامت، آنکھوں کے چند قطرے، اور معافی کے بول خدا کی رحمت کو جوش دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں
مجھے یقین نہیں آتا تھا ۔لیکن‌ آج اباجان کی بات سچ ثابت ہوگئی  ۔
بشیر نے آشفتگی سے پوچھا ۔۔۔ڈاکٹر صاحب ۔۔آپ کہنا کیا چاہتے ہیں 
میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔۔آپ کی شریک حیات ماں بننے والی ہے 
بشیر  کے حواس باختہ  ہوگئے۔اس کا روم روم چونک گیا ۔اس نے ورطہ حیرت میں ڈوب کر ڈاکٹر سے پوچھا۔۔۔ڈاکٹر صاحب 
۔اٹکھیلیاں مت کرو  !
نہیں چاچا نہیں ۔ یہ اٹکھیلی نہیں حقیقت ‌ہے ۔پانچ مہینے ہوگئے ہیں ۔یہ قدرت کی بہترین سوغات ہے ۔۔۔
ملک منظور قصبہ کھُل کولگام 

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ