Ticker

6/recent/ticker-posts

جہیز کی لعنت پر مضمون | Jahez Ki Lanat Par Mazmoon

جہیز کی لعنت لعنت پر مضمون اردو میں

جہیز کی لعنت ہمارے سماج میں قدیم زمانے سے رواج میں ہے۔ جہیز لینا اور دینا ہمارے سماج کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ وقت کے ساتھ بہت سے غلط رسم و رواج سماج میں ختم ہوگئے لیکن جہیز ایک ایسی بری لعنت ہے جو اب تک قائم ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے جہیز کی لعنت جیسی رسم و رواج میں بھی اضافہ ہوتے جا رہا ہے۔

جہیز پر مضمون

قدیم زمانے میں جہیز کی رسمیں اس طرح سے تھی کہ لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی میں میں اپنی حیثیت کے مطابق جہیز میں ضرورت کے سامان دیتے تھے۔ لوگ ایسا سوچتے تھے کہ لڑکی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اور نئے گھر میں جا رہی ہے تو وہاں اچانک سے اس کو ضرورت کی چیزیں کہاں سے دستیاب ہوگی اس لیے اس کے ساتھ روز مرہ کی ضرورت کی چیزیں دے دینی چاہیے اسی کو جہیز کہا جاتا تھا۔ لیکن وقت بدلنے کے ساتھ رفتہ رفتہ جہیز دینا بالکل ضروری رسم ہوتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اب جہیز میں لوگ اپنی من پسند کی چیزیں مانگنے لگے۔ موجودہ زمانے میں جہیز کی حالت ایسی ہے کی لڑکے والے اپنی مرضی کے مطابق جہیز کی مانگ کرتے ہیں اور جب تک ک ان کی مانگ پوری نہیں ہو جاتی تب تک شادی نہیں کرتے۔ جہیز دینا ضروری ہونے کی وجہ سے غریب لوگوں کی لڑکیوں کی شادی ہونی بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔

جہیز کی لعنت ہمارے سماج سے ختم نہیں ہو رہی ہے اس کے بہت سے وجوہات ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سماج میں عورتوں کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں بہت کم تر درجے کی سمجھی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اگر کسی لڑکے کا باپ اپنے بیٹے کے لیے کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ وہ لڑکی والوں پر بہت بڑا احسان کر رہا ہے۔ لہذا وہ خیال کرتا ہے کہ اتنے بڑے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے انہیں جہیز کے طور پر بہت سارا قیمتی سامان اور روپئے پیسے ملنے چاہیے۔ ہمارے سماج میں بہت کم لوگوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ عورت اور مرد کا حق سماج میں ایک سا ہے۔ حقیقت دراصل یہ ہے کہ عورت اور مرد میں فرق کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

ہمارے سماج میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تر سمجھنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں عورتوں کو تعلیم کم دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی عورتیں اپنے حقوق کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ پا رہی ہے۔ معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے ذریعے جو باتیں بتائی جاتی ہے عورت اسی کو اپنا مقدر سمجھتی رہتی ہے اور اس کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔

معاشرے میں جہیز کی لعنت نہ ختم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عورتیں مالی اعتبار سے بھی مردوں کی آمدنی پر گزارا کرتی ہیں۔ اکثر عورتوں کو اس بات کا خیال رہتا ہے ہے کہ ہمارا مرد ہی پیسہ کما کر گھر کا سارا انتظام کرتا ہے ایسی حالت میں اس کی ہر بات ماننا ہمارا فرض اور مقدر ہے۔ شوہر کسی دوسرے کی بیٹی کے لیے روٹی فراہم کرتا ہے اور اس وجہ سے وہ جہیز مانگتا ہے اور اس بات کو دیکھتے ہوئے لڑکی کا باپ جہیز دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں جو لوگ بھی جہیز کی موافقت کرتے ہیں اکثر ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ باپ کی جائداد میں سے کچھ حصہ لڑکی کو ضرور ملنا چاہیے۔ حالانکہ لوگوں کے اس طرح کے خیال میں بالکل بھی پختگی نہیں ہے۔

شادی کے بعد ہر لڑکی کو ایک نیا گھر ملتا ہے اور ہر لڑکے کو بیوی ملتی ہے جو اس کے گھر کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس طرح دونوں کی ضروریات پوری ہوتی ہے جس میں دونوں ہی ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن جہیز ہی کی وجہ سے عورتوں کو معاشرے میں وہ عزت اور مقام حاصل نہیں ہو پاتی جو کہ مردوں کو ہے اور اسی وجہ سے اکثر عورتیں احساس کمتری کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔ اس کا اثر ان کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ ان کے گھروں کا سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ آج کل آپ کو کوئی نہ کوئی خبر ایسی ضرور نظر آئے گی جس میں لکھا ہو گا کہ لڑکی نے سسرال والوں کے برے سلوک سے تنگ آکر گھر چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ صرف جہیز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب لڑکے والوں کو توقع سے کم جہیز ملتا ہے تو وہ لڑکی کو ہر طرح سے پریشان کرنے لگتے ہیں۔

ان کے برے سلوک سے تنگ آ کر اکثر لڑکیاں خود کشی کر لیتی ہیں۔ بعض لوگ اپنی بہو کو زندہ جلا دیتے ہیں اور ان کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ زیادہ جہیز کیوں نہیں لائیں۔کچھ والدین اپنی لڑکی کا جہیز تیار کرنے کے لیے اپنی ساری جائیداد بیچ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدنی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بہت سے لوگ برباد ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ آگے چل کر ملک کی ترقی میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ بات اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ لوگ جن کے صرف لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکے نہیں ہوتے وہ بدقسمت سمجھے جاتے ہیں اور جن کے محض لڑکے ہوتے ہیں اور لڑکیاں نہیں ہوتی خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اس رسم کو ختم کر دیا جائے تو ہمارے ملک اور سماج کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔

ویسے اب وقت آگیا ہے کہ ہم حالات سے فائدہ اٹھا کر ایسے ثابت قدم اٹھائیں جس سے کہ اس مصیبت سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ پایا جاسکے۔ اس سے چھٹکارہ پانے کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم پھیلائی جائے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو برابر کی تعلیم دی جائے۔ عورتوں کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے اور ان کو اس بات کا بھی احساس دلایا جائے کہ سماج کو بنانے اور سنوارنے میں ان کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ عورتوں کو نوکریاں دی جائیں، عورتوں کے نوکریاں کرنے سے بھی جہیز کی رسم میں کمی آئے گی۔

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ